“علاقائی اخبارات وقت کی ضرورت”
علاقائی اخبارات کسی بھی حکومت کیلئے بہت مفید ثابت ھوتے رہے ہیں لیکن جتنا فائدہ ان علاقائی اخبارات کا تحریک انصاف کو ھوا ہے شاید ہی کسی گورنمنٹ کو ھوا ھو, ہم زیادہ دور نہیں جاتے صرف الیکشن 2018 کی ہی بات کرتے ہیں جب بڑے میڈیا گروپس نے تحریک انصاف کا بائیکاٹ کیا تو اس وقت چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان و آزاد کشمیر سے نکلنے والے ان ریجنل اخبارات نے تحریک انصاف اور عمران خان کو بھرپور کوریج دی۔ جس وقت بڑے میڈیا گروپس عمران خان اور تحریک انصاف کی سنگل کالم خبر لگانے کو تیار نہیں تھے اس دوران انہی ریجنل اخبارات نے دو دو پیج کے سپلیمنٹ ایڈیشن بغیر پیسوں کے پبلش کیے اور تحریک انصاف کو پروموٹ کیا۔
چونکہ عمران خان نیا پاکستان کا نعرہ لیکر اقتدار میں آرہے تھے لہذا ان کے اس پیغام کو عوام تک مئوثر انداز میں پہنچانا ضروری تھا اور یہ کام علاقائی اور چھوٹے اخبارات نے بخوبی سرانجام دیا اور عمران خان کے اس ویژن کو گھر گھر پہنچایا جس سے لوگوں میں آگاہی پیدا ھوئی اور 2018 میں تحریک انصاف حکومت بناگئی اور عمران خان نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا۔ یہ 22 سال کی جدوجہد کا ثمر تھا لیکن عمران خان کی اس جدوجہد میں ان علاقائی اخبارات نے عمران خان اور تحریک انصاف کا بھرپور ساتھ دیا۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقائی اخبارات کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بہتری کی امید لگی اور انہیں یقین تھا کہ وہ انہیں معاشی بحران سے نکالیں گے۔ چونکہ اخبارات اشتہارات کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ان اشتہارات کے ملنے سے اخبارات سے وابستہ کئی خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد اشتہارات کی پالیسی پر ازسرنو غور کرنا شروع کردیا اور تحریک انصاف کے پہلے وفاقی وزیراطلاعات فوادحسین چوھدری نے علاقائی اخبارات اور پرنٹ میڈیا کو ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ ان کا یہ فیصلہ بہت حیران کن تھا اور علاقائی اخبارات اور اس سے وابستہ افراد کی بقاء کا مسئلہ تھا خیر کچھ ٹائم بعد فواد چوھدری صاحب کو ہٹادیا گیا اور ان کی جگہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو مشیر اطلاعات لگادیا گیا۔ ان کے مشیراطلاعات بنتے ہی علاقائی اخبارات اور ان سے وابستہ 40 ہزار سے زائد خاندان نے امیدیں باندھ لیں کہ اب حالات بہتر ھوجائیں گے اور میڈیا انڈسٹری اپنے پاؤں پہ کھڑی ھوجائے گی۔
انہوں نے آتے ہی پرنٹ میڈیا کیلئے یہ خوشخبری سنائی کہ پہلے ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو چیک دیے جاتے تھے جس میں سے 15 فیصد انہوں نے اپنا کمیشن رکھنا ھوتا تھا جبکہ 85 فیصد اخباری مالکان کو دینا ھوتا تھا لیکن وہ تمام پیسے رکھ جاتیں اور مالکان اور ورکرز کو بڑی تگ و دو کے بعد کہیں پیسے ملتے وہ بھی تھوڑے تھوڑے کرکے لیکن اب ایسا نہیں ھوگا اب ہم ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کا رول محدود کرنے جارہے ھیں اب پیسے پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ(PID) سے ہی ملا کریں گے اور اس میں سے 15 فیصد ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو جائے گا جبکہ 85 فیصد اخباری مالکان کو,یہ خبر کافی حوصلہ افزا تھی کیونکہ واقعی ان ایجنسیوں نے انت مچائی ھوئی تھی اور پیسے مانگنے والوں کو آئے روز گولیاں کرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ خیر اعلان تو ھوا مگر اس پر عملدرآمد رک گیا۔ اشتہارات دن بدن سکڑنے لگے یعنی ایک مخصوص ٹولے کو جانے لگے۔ علاقائی اخبارات کی نظریں وزیراعظم عمران خان پر تھیں کیونکہ حالات دن بدن خراب ھوتے جارہے تھے اسی اثناء میں تمام میڈیا Centerlized کردیا گیا یعنی تمام اداروں کی ایڈورٹائزنگ کا اختیارات وزارت اطلاعات کو سونپ دیا گیا کوئی بھی ادارہ اپنی مرضی کے پیپرز نہیں ڈال سکتا تھا سب اختیارات وزارت انفارمیشن کے پاس آگئےاس فیصلے نے علاقائی اخبارات کو ہلا کر رکھ دیا کیونکہ پہلے علاقائی اخبارات اپنے اپنے صوبوں سے 75 فیصد اشتہارات لیتے تھے جبکہ 25 فیصد وفاق دیتا تھا اب 100 فیصد وفاق کے پاس آگیا تھا جسکی وجہ سے علاقائی اور میٹروپولیٹن اخبارات کے اشتہارات بالکل کم ھوگئے اور انہیں اب ان کی نظریں اسلام آباد پر تھیں۔
اس دوران کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور تمام ممالک لاک ڈاؤن کی طرف جانے لگے پاکستان میں بھی حالات کی سنگینی کو دیکھتے ھوئے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تمام سرکاری اداروں کو محدود کردیا گیا جس کا میڈیا پر بہت اثر پڑا اور اشتہارات مزید سکڑ گئے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار زندگی مفلوج ھوکر رہ گیا اخباری صنعت کو بھی بند کردیا گیا۔ اخبارات کی پرنٹنگ محدود کردی گئی پبلک ٹرانسپورٹ اور فلائٹس بند کردی گئی جس سے علاقائی اخبارات کی ترسیل رک گئی جس سے مزید لوگ بیروزگار ھوگئے اس دوران ایک جعلی خط کو سامنے لاکر علاقائی اخبارات کا مختص 25 فیصد کوٹہ روک دیا گیا اس فیصلے نے علاقائی اخبارات اور اس سے جڑے 40 ہزار خاندان کی کمر توڑ کے رکھ دی کرونا کی وجہ سے سب گھروں میں محدود تھے 25 فیصد کوٹہ ختم ھوتے ہی علاقائی اخبارات اور ان سے وابستہ افراد کی رہی سہی جان بھی نکلنے لگی لوگوں کے گھروں میں فاقے پڑنے لگے رمضان شروع ھوچکا تھا اس شعبہ سے وابستہ ایسے افراد بھی دیکھنے کو ملے جن کو مانگ تانگ کر سحری کا کھانا تو مل گیا مگر افطاری کے وقت سادہ پانی ہی نصیب ھوا۔ اس شعبے سے وابستہ اکثر افراد کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ان کے پاس کرایہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ عید کی آمد آمد ہے آخری عشرہ شروع ھوچکا ہے۔وفاقی وزیراطلاعات جناب شبلی فراز اور معاون خصوصی جناب عاصم سلیم باجوہ کی یقین دہانیوں کے باوجود علاقائی اخبارات کا مختص 25 فیصد کوٹہ تاحال بند ہے اور ان اخبارات کو مزید دبایا جارہا ہے جبکہ وہ اخبارات اور میڈیا گروپس جو تحریک انصاف اور عمران خان کے روز اول سے مخالف تھے ان کی موجیں ہی موجیں ہیں۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب علاقائی اخبارات اور اس سے وابستہ 40 ہزار خاندان آپ سے اپیل کرتا ہے کہ خدارا ہمارے ساتھ ایسا نہ کریں ھم نے ھمیشہ ریاست پاکستان کو سپورٹ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے اس وقت ھماری بقاء کا مسئلہ ہے خدارا اس کا نوٹس لیجیئے اور علاقائی اخبارات کا 25 فیصد کوٹہ فی الفور بحال کیا جائے اور ان اخبارات اور ان سے وابستہ افراد کو ریلیف دیا جائے کیونکہ آپ نے ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی بنیاد رکھی ہے پھر یہ کیسے ھوسکتا ہے کہ ریاست مدینہ میں کسی سے ناانصافی ھو۔ اس شعبے سے جڑے ہر فرد کو آپ کے فیصلے کا انتظار رہے گا۔
تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
Twitter: @SAGHAR1214