اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی، مگر پاکستان میں زیادہ احتیاط ضروری کیوں؟

کورونا وائرس صورتحال، اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی، مگر پاکستان میں زیادہ احتیاط ضروری کیوں؟

آج دنیا کورونا وائرس کی شکل میں ایک شدید وباء کی لپیٹ میں ہے۔ اس مہلک وباء نے نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی پر اثرات مرتب کئے ہیں بلکہ بڑی بڑی معیشتوں کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کورونا وائرس ایک نیا وائرس ہے جو گزشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر وہان میں منظر عام پر آیا۔
نیا وائرس ہونے کی وجہ سے اسے کووڈ انیس کا نام دیا گیا۔ منظر عام پر آنے سے لے کر اب تک اس کا کوئی علاج تو دریافت نہ ہو سکا مگر جو چیز سب کے سامنے واضح طور پر آئی وہ اس کی ایک شخص سے دوسرے شخص تک تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا نے اس کے تیز پھیلاؤ کو روکنے کا جو سب سے پہلا طریقہ نکالا وہ لاک ڈاؤن یعنی کچھ شہروں یا
پورے ملک کو مکمل طور پر بند کرنا تھا۔ اس کا سب سے پہلا تجربہ چین نے کیا اور یہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا کیونکہ کورونا وائرس چین کے دوسرے صوبوں تک نہیں پھیلا۔ دنیا کے اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد انہوں نے لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اپنایا۔لاک ڈاؤن کرنے کا مثبت پہلو تو یہ تھا کہ اس نے کورونا کے پھیلاؤ کو کسی حد تک محدود کر دیا۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کے منفی اثرات سامنے آئے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو امراء کی معاشی حالت پر تو کورونا اثر انداز نہ ہوا۔ سرکاری ملازم بھی کسی حد تک کورونا کے معاشی زندگی پر پڑنے والے اثرات سے محفوظ رہے۔نجی شعبے سے منسلک لوگ ، چھوٹے کاروباری حضرات اور روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والے لوگ کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان لوگوں کی معاشی زندگی پر کورونا نے تباہ کن اثرات مرتب کئے۔ اکثر مزدوروں اور دیہاڑی دار لوگوں کے گھروں میں فاقوں تک کی نوبت آگئی۔

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ لاک ڈاؤن کورونا وائرس کا کوئی مستقل حل نہیں، محض اس کے تیز پھیلاؤ کو روکنے کا ایک طریقہ ہے تاکہ کم سے کم لوگ اس سے متاثر ہوں۔ اب تین سے چار ماہ بعد دنیا کے اکثر ممالک لاک ڈاؤن کھولنے کی طرف جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی شرائط میں دن بدن نرمی کی جا رہی ہے۔ دکانوں سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ
مالز تک، پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر مقامی پروازوں تک، ہر چیز آہستہ آہستہ بحال کی جارہی ہے۔ یہ عمل دنیا کے اکثر ممالک میں جاری ہے مگر پاکستان میں حالات دیگر ملکوں کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔ دنیا میں لاک ڈاؤن اس وقت کھولا جارہا ہے جب نئے کیسز کی شرح میں مسلسل کمی آرہی ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت بھی کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسرا اور سب سے اہم فرق احتیاط کا ہے۔ دنیا کے جتنے ممالک لاک ڈاؤن میں نرمی کر رہے ہیں، ان کی حکومتوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر بھر پور طریقے سے عمل ہو۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے
کیا یہاں ذمہ داری محض حکومتوں کی بنتی ہے؟ کیا عوام پر کوئی ذمہ داری عائد نہین ہوتی ؟ باہر کے ملکوں میں اگر لاک ڈاؤن میں نرمی برتی جارہی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے پڑھے لکھے باشعور لوگ اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ ماسک پہننے سے لے کر ہاتھ دھونے تک، غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے سے لے کر سماجی فاصلہ برقرار رکھنے تک، وہ لوگ ہر چیز میں اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک کی بات کی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کورونا کے خاتمے کا جشن منایا جارہا ہے۔ بازاروں میں حد سے زیادہ رش سماجی فاصلوں کی دھجیاں اڑاتا نظر آتا ہے۔ ایک وقت میں بمشکل دس فیصد لوگ ہی ماسک پہنے نظر آتے ہیں۔ بزرگ اور بچے جنہیں مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ، بڑی تعداد میں بازاروں کا رخ کر رہے ہیں۔ اب یہاں حکومت سے زیادہ ذمہ داری ہر شہری کی انفرادی ذمہ داری ہے جو اسے اپنے اور دوسروں کے فائدے کے لئے پوری کرنی ہے۔

حکومت وقت بیرونی ممالک کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں بڑے پیمانے پر نرمی تو کر رہی ہے مگر ہماری عوام کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہوئے اس عمل میں انتہا سے زیادہ احتیاط اور سختی کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ نظم و ضبط کی شدید کمی کا شکار اور احساس ذمہ داری سے عاری ہیں۔ مزید یہ کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں قانون کی عملداری پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہہی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں لاک ڈاؤن کھولتے وقت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ کورونا کے مزید پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ اگر لوگ اسی طرح سے احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے رہے تو مستقبل قریب میں وطن عزیز میں کورونا کے تیز پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ ہمارے ملک کا کمزور صحت کا نظام اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ احتیاطی تدابیر اپنائے اور قانون پر عمل درآمد کروائے بغیر لاک ڈاؤن کھولنا محض تباہی کو دعوت دینے کے برابر ہے۔

تحریر : فرحان قریشی
فیکلٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز، دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور

اپنا تبصرہ بھیجیں