“اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور” آؤ چلیں اس راہ پر,

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور۔ آؤ چلیں اس راہ پر

کسی نے کہا تھا، کہ خواب وہ نہیں ہیں جو آپ کو سوتے میں نظر آئیں بلکہ خواب وہ ہیں جو آپ کو سونے نہ دیں۔ اور اصل میں یہ وہ خواب ہیں جو سوچنے کا انداز بدل دیتے ہیں، جینے کا ڈھنگ بتا دیتے ہیں، سیکھتے رہنے کی اہمیت سمجھا دیتے ہیں۔ اور میرے خیال میں ایسے خوابوں کے پیچھے جانے کے لیے یونیورسٹی سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی۔ اور یہاں یونیورسٹی سے میری مراد، اعلیٰ تعلیم کا وہ ادارہ جو اپنے وجود کے جواز سے واقف بھی ہو، اور اس چیز کو ثابت کرنے کی اسے ضرورت بھی نہ ہو۔ یعنی کہ وہ صحیح معنوں میں ”اعلیٰ” تعلیم کا ادارہ ہو، جہاں تعلیم، تدریس، تحقیق، سوچ، کردار، نظریہ، عمل، غرضیکہ سب کچھ اعلیٰ اور ارفع ہو۔

پاکستان میں اس وقت دو سو سے ز ائد جامعات ہیں، اور چند ایک کو چھوڑ کر سب کا شمار ینگ یونیورسٹیز (young universities) میں کر سکتے ہیں (ٹائمز ہائر ایجوکیشن کے مطابق جن یونیورسٹیوں کو بنے پچاس سال سے کم عرصہ ہوا ہو، وہ ینگ یونیورسٹیز کی کیٹیگری میں آتے ہیں)۔ یہ تمام ادارے اپنی اپنی خصوصی حیثیت اور صلاحیتوں کے مطابق اپنی متعین کردہ منزل کی طرف گامزن ہیں۔
چونکہ یونیورسٹی کا مقصد اعلیٰ تعلیم اور تحقیق ہے، اسے لیے اس سے جڑے لوگوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، یہ سکول اور کالج کی طرز پر کام نہیں کرتیں جہاں موجودہ علم طلبا کو منتقل کیا جاتا ہے جس کو ٹرانسفر آف نالج کہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے اداروں نے نئی تحقیق کر کے، نئے علوم کو دریافت کرنا ہوتا ہے، صنعتوں کو موثر ٹیکنالوجی سے مستفید کرنا ہوتا ہے، سماج کے مسائل کا ادراک کرنا اور ان کے قابل ِ عمل حل تلاش کرنا ہوتا ہے، معاشی، معاشرتی، دینی، سائنسی، سماجی، غرضیکہ ہر طرح کے علوم کے لیے ماہرین تیار کرنا، اور ان علوم کو صحیح معنوں میں انسانیت کے لئے مفید بنانے کیلئے مددگار نظام بنانا اور اس کو چلانا، یہ سب اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے وجود کا جواز ہے۔

بظاہر تمام اداروں کے ویژن اور مشن سٹیٹمنٹ (vision and mission statements) بہت ہی خوبصورت، اور پر کشش قسم کے ہیں، مگر کسی بھی ادارے کی کارکردگی بہر حال ان سے نہیں جھلکتی، کیونکہ اکثر اوقات اسی ادارے کے لوگ بھی ان سے آگاہی نہیں رکھتے۔ اداروں کی پہچان یا شہرت، وہاں کی فیکلٹی، طلبا، تعلیم، تحقیق، ایلومینائی، مقالہ جات، عملی مباحثے، سیمینارز، کانفرنسز، ورکشاپس، سول سوسائٹی کا اعتماد، اور سب سے بڑھ کر ایک اچھی قیادت اور موثر گورننس سے ہوتی ہے۔ متذکرہ تمام پہلو اپنی جگہ پر بہت اہم ہیں اور ان سب پر الگ الگ ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے، مگر میرے خیال میں گورننس کا اثر ان سب پر پڑتا ہے، اس لیے اس کی اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہے۔ ایک یونیورسٹی میں بورڈ آف سٹڈیز، بورڈ آف فیکلٹیز، اکیڈمک کونسل، بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز اینڈ ریسرچ، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی، سلیکشن بورڈ، سینڈیکیٹ،اور سینیٹ مل کے نظم و نسق، پالیسی سازی، اور دیگر اہم امور کے فیصلے کرتے ہیں۔ جن میں اساتذہ و آفیسرز کی تقرری و ترقی، بجٹ سازی، ایم فل،پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کی منظوری کے علاوہ بہت سے اور اہم معاملات شامل ہیں۔ یہ سب با ڈیز اپنے ان اختیارات کے اندر رہ کے کام کرنے کا پابند ہوتے ہیں جو صوبائی یا قومی اسمبلی نے ان کو دیے ہوتے ہیں۔ (میں معذرت خواہ ہوں ان تمام ناموں کو انگلش میں لکھنے کا، کیونکہ ان کا اردو ترجمہ اور بھی زیادہ مشکل لگ رہا تھا۔ مثا ل کے طور پر فیکلٹی کو کلیہ، اکیڈمک کونسل کو مجلس ِ علمی، سلیکشن بورڈ کو مجلس ِ انتخابات، بورڈ آف سٹڈیز کو مجلس ِ نصابات، ڈین کو صدر کلیہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر کو شریک پروفیسر،اور اسسٹنٹ پروفیسر کو معاون پروفیسر لکھا، اور بولا جاتا ہے، اور ہم سب عموماًان سے فہم نہیں رکھتے)
یونیورسٹیز اگر وقت کی رفتار کو نہ سمجھ سکیں، اور اپنے آپ کو موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اگر ہم آہنگ نہ ہوں تو پھر ان کی کارکردگی اور شہرت پر بھی فرق پڑتا ہے، اور وہ اپنے اصل مقصد سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ بلکہ آج کل کے معاشی مشکلات کے دور میں، یونیورسٹی کا مالی طور پر مستحکم ہونا بھی اس کی اچھی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، جو آج کے مضمون کا محور ہے، جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی پہچان بننے والے عناصر میں سے ایک ہے، اگرچہ یہ ادارہ سو سال سے زیادہ عرصہ، ایک تعلیمی ادارے کے طور پر موجود رہا ہے، اور یہاں کے لوگوں کو علم و ہنر میں بھر پور مدد کرتا رہا ہے، مگر اس کو یونیورسٹی کا چارٹر ۱۹۷۵ میں ملا۔ پچھلے پینتالیس سالوں سے اس ادارے کے ارتقآ میں تسلسل تو رہا ہے مگر اس کی رفتار متاثر کن نہیں تھی۔ پاکستان کی جامعات کے گورننس سسٹم میں عام طور پر یکسانیت نہیں ہے، لیکن اگر کچھ ادارے بالکل ایک جیسے ایکٹ کے دائرے میں بھی ہیں، پھر بھی ان کی کارکردگی مختلف ہوتی ہے اور اس کی بڑی وجہ لیڈرز(وائس چانسلرز) کے تجربے، مہارت، نیت، اور ویژن میں فرق ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بھی باقی جامعات کی طرح چار سال کے لئے سربراہ تعینات ہوتے ہیں۔ پچھلے پینتالیس سالوں میں اچھے اچھے اکیڈمک لیڈرز آتے رہے، اور ادارے کو آگے کی طرف بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ اسی سمت میں یونیورسٹی نے آگے جانے کے لیے حال ہی میں، نہ صرف تسلسل کو برقرار رکھا، بلکہ اس باربہت سے انقلابی اقدامات ایک ساتھ کئے گئے جو کہ یونیورسٹی کے ایک اچھا مستقبل کی بنیاد بننے جا رہے ہیں۔ ایک طرف تو کورونا کی وجہ سے جو اچانک سے چیلنج سامنے آیا، یونیوسٹی نے بھر پور طریقے سے اس سے نمٹنے کے اقدامات کیے۔ اگرچہ پہلے سے طے کیا گیا تھا کہ ادارہ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے اپنے تعلیم، اور انتظامی معالات میں جدت لائے گا، مگر اس اچانک سے آنے والے مسئلے کی وجہ سے وہ سب کچھ زیادہ مستعدی سے کرنا پڑا، اور یونیورسٹی اس میں کامیاب بھی ہو گئی۔ نہ صرف طلبا کاوقت بچانے کے لئے ان کی کلاسز منعقد ہوئیں، بلکہ اب امتحان لینے کا بھی بندوبست کر لیا گیا اور شیڈول جاری کر دیا گیا۔
سب سے زیادہ اہم چیز، نئے شعبہ جات، نئی فیکلٹیز، نئے سکول اور انسٹیٹیوٹ، کا قیام ہے۔ یہ سب صرف اس صورت میں ممکن تھا، اور ہے، جب تمام انتظامی اکائیاں ہم آہنگ ہوں، ان کے اجلاس میں نہ صرف تواتر ہو، بلکہ ایک خاص پلاننگ اور ترتیب ہو۔ ظاہر ہے موثر گورننس کا سہرا سربراہ ِ ادارہ کو ہی جاتا ہے، اسی لیے بلا شبہ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب، وائس چانسلر کو اس جدت کا کریڈٹ جاتا ہے کہ ادارے میں ایسے پروگرامز، ڈیپارٹمنٹس، اور فیکلٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا، جو کہ آج کے دور کا تقاضا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ، تمام ڈینز، اور شعبہ جات کے سربراہان اور اساتذہ کرام، جنہوں نے اپنے دائرہ کار میں ان جدید پروگرامز کی بنیادیں رکھیں، ان کے سلیبس بنائے اور بورڈز و کونسلز میں ان کو پیش کیا، دفاع کیا، اور پھر منظور کروایا۔ گزشتہ ہفتے کی اکیڈمک کونسل یعنی مجلس ِ علمی نے،نہ صرف فیکلٹیز کی تعداد ۶ سے بڑھا کر ۱۳ کی، بلکہ ان کی کمپوزیشن کو بھی درست کر دیا، اور ہر شعبہ اب متعلقہ فیکلٹی کا حصہ ہے۔ یونیورسٹی کی لیڈرشپ کو صحیح معنوں میں ادراک ہے، کہ اسلامیہ یونیورسٹی کو ملکی اور عالمی سطح پرایک ممتاز مقام دلانے کی لئے اس طرح کی اصلاحات کی بہت ضرورت ہے۔۔ فیکلٹی آف آرٹس میں انگلش لٹریچر، انگلش لینگوئسٹکس اور فلسفے کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں اور یونیورسٹی کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن میں شعبوں کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ فیکلٹی آف سوشل سائنسز میں انتھروپولوجی اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں جنہیں بتدریج مکمل شعبہ جات کی حیثیت دے دی جائے گی۔ فیکلٹی آف ایجوکیشن میں پرائمری چائلڈ ہڈ ایجوکیشن، سپیشل ایجوکیشن، ایجوکیشن پلاننگ اینڈ مینجمنٹ، ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ایویلیوایشن اور لینگوئج ایجوکیشن کے نئے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔ فیکلٹی آف اسلامک لرننگ میں ٹرانسلیشن سٹڈیز کا شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور کامرس میں اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس کے شعبے کے ساتھ سکول آف بزنس مینجمنٹ اینڈ ایڈمنسٹریٹو سائنسز قائم کیا گیا ہے جو9شعبہ جات پر مشتمل ہوگاجن میں انٹرپرینورشپ، ٹورازم مینجمنٹ، پراجیکٹ اینڈ آپریشن مینجمنٹ، ٹیکنالوجی مینجمنٹ، اسلامک اینڈ کامرس بینکنگ اور ایڈمنسٹریٹو سائنسز جیسے نئے شعبہ جات شامل ہیں۔ فیکلٹی آف فارمیسی پانچ شعبہ جات مشتمل ہو گئی ہے۔ فیکلٹی آف سائنس میں انسٹی ٹیوٹ آف بائیو کیمسٹری، بائیو ٹیکنالوجی،بائیو انفارمیٹکس کے ساتھ ساتھ، فزکس ڈیپارٹمنٹ کو انسٹی ٹیوٹ آف فزکس سے اپگریڈ گیا ہے جو 11شعبہ جات پر مشتمل ہوگا جن میں میڈیکل فزکس، سیمی کنڈکٹر اینڈ نینو ٹیکنالوجی، میٹیریل سائنس، سپیس سائنس، جیو فزکس، پارٹیکل فزکس اور رینیو ایبل انرجی کے نئے شعبے شامل ہیں۔ فیکلٹی آف انجینئرنگ میں مکینکل انجینئرنگ اور سنٹر فار رینیو ایبل انرجی سسٹم جیسے شعبہ جات کا اضافہ کیا گیا۔ فیکلٹی آف کمپیوٹنگ میں 6شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس، انفارمیشن سیکورٹی اور ڈیٹا سائنسز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ فیکلٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز 13شعبہ جات پر مشتمل ہوگی جبکہ فیکلٹی آف ایگریکلچر اینڈ اینوائرمنٹل سائنسز میں 9شعبہ جات ہوں گے۔ فیکلٹی آف لاء میں لاء اور اسلامک اینڈ شریعہ لاء کے شعبے قائم ہوں گے۔ فیکلٹی آف میڈیسن اینڈ الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں فزیکل تھراپی، یونیورسٹی کالج آف کنونشنل میڈیسن، پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج، سکول آف نرسنگ اور ہیومین ڈائٹ اور نیوٹریشن کے شعبہ جات قائم کیے گئے ہیں۔

ان اقدامات کے علاوہ یونیورسٹی میں پچھلے سال سے طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اور ان نئے شعبہ جات کے آنے سے اس شرح میں اچھا خاصا اضافہ متوقع ہے، اور یونیوسٹی اب اپنے انفرا سٹرکچر کو اس طرح سے اپگریڈ کر رہا ہے، جس کی جھلک فنانس اینڈ پلاننگ کی میٹنگ میں نظر آئی، کہ ادارہ اپنے وسائل سے نئے اکیڈمک بلاک بنانے کے لیے بجٹ مخصوص کر چکا ہے۔
بہاولپور، اور جنوبی پنجاب کی عوام، یہ سمجھتی ہے کہ متحرک قیادت میں اسلامیہ یونیورسٹی نے کامیابیوں کا ایک نیا سفرشروع کیا ہے، اور اب تک کا ٹرینڈ اس کی تائید بھی کر رہا ہے،کہ اگر اسی راہ پر چلتے رہے، تو یہ ادارہ بہت جلد ایک ممتاز حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گا۔

تو اسے پیمانہ ِ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سر ِ آدم ہے، ضمیر ِ کن فکاں ہے زندگی

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد بزدار
چیئر مین شعبہ فزکس و ڈائریکٹر کوالٹی انہانسمنٹ سیل
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور

اپنا تبصرہ بھیجیں