تحریر،،، عاصم صدیق
خبر کی بھوک،،، صحافی خطرہ مول لے لیتے ہیں
کسی بھی صحافی کے لیے سب سے اہم خبر ہی ہوتی ہے۔ اچھی اور بڑی خبر کی بھوک ہر صحافی کو ہوتی ہے۔ بعض اوقات اسی خبر کی اشتہا کوچارہ کے طورپر بھی استعمال کیاجاتاہے یا پھر خبرکی تلاش میں پہنچنے والے صحافی کے ساتھ ایسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں کہ وہ خود تشدد کا نشانہ بن جاتاہے۔
پاکستان پریس فائونڈیشن کے ڈیٹا میں ایک ہی کہانی میرے ڈویژن بہاولپور سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں خبر کا لالچ دے کر بیابان جگہ پر بلایا گیا اورپھر رپورٹر اور کیمرہ دونوں پر بیمانہ تشدد کیاگیا۔
یاسین اںصاری قومی اخبار کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ 2011میں پیش آیا۔ جب ان کو اور ان کے فوٹوجرنلسٹ ساتھی خالد سردار کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ خبر کی بھوک کی تلاش میں تشددکی کہانی کی کھوج میں یاسین انصاری سے رابطہ کیا۔
یاسین انصاری نے ماضی دریچوں سے تلخ اور پرتشدد واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کو فون پر ایک کال آتی ہے کہ کچھ لوگ بغداد الجدید میں اسلامیہ یونیورسٹی کےساتھ زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہاولپور سے وہ اپنے کیمرہ مین خالد سردار کے ساتھ موقع پر پہنچے تو کار میں سوار افراد نے ان کو کچھ پوچھے ہی بغیر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ مارپیٹ کرنے والے ادن کو بری حالت میں چھوڑ کرفرار ہوگئے۔یاسین راشد نے بتایا کہ ان کو تشدد کا نشانہ ایک پلاننگ کے تحت بنایاگیا تھا۔ جس میں ان کو واقع اور خبر کا لالچ دے کر بیابان جگہ پر بلاکر تشدد کانشانہ بنایاگیا۔ انہوں نے اس واقعہ سے کچھ روز قبل چولستان میں محکمہ لائیوسٹاک کی جانب سے جانورں کے لیےبنائے گئے شیڈز میں کروڑوں روپے گھپلے کی خبر کو چھاپا۔ جس کا نوٹس اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بھی لیا۔ خبر نشر کرنے کا غصہ ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک علی رضا کو بہت تھا۔ جس پر انہوں نےاپنے دوستوں اور بندوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعہ کے بعد اس کا مقدمہ ڈپٹی ڈائریکٹر لائیو سٹاک علی رضا سمیت نامعلوم افراد خلاف درج کرایاگیا۔ پولیس نے 5 افراد کو حراست میں لیا تو ان کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ تشدد کرنےوالوں کی تعداد 13 تھی۔ حراست میں لیے گئے افراد 2سال تک جیل میں رہے اور باقی افراد مفرور رہے۔ 2سال بعد کچھ دوستوں نے کردار اداکرتےہوئے صلح کرادی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر لائیوسٹاک کے خلاف انکوائری ہوئی جس میں وہ کرپشن میں ملوث پائے گئے اور کمشنر بہاولپور نے بھی ان کو ڈویژن بہالپور میں کبھی بھی تعیناتی نہ کرنے کا کہا۔یاسین انصاری کا کہنا تھا کہ خبر کی تلاش ہر صحافی ہروقت خبر کی تلاش ہی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی بھی واقعہ یا خبر کی اطلاع آتی ہے تو صحافی بغیر سوچے سمجھے اور احتیاطی تدابیر کو بلائے طاق رکھتےہوئے وہاں پہنچتا ہے ۔
طیب سیف مقامی ٹی وی کے بیوروچیف ہیں۔ صحافی کوپیشہ وارانہ مشکلات کے حوالے سے ان سے پوچھا گیاتو طیب سیف نے بتایا کہ اچھی اور بڑی خبرکی تلاش ہمیشہ ایک صحافی کو رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی اطلاع ملے تو ایسے میں صحافی تمام احتیاطی تدابیر کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس جگہ پر پہنچنے کی کوشش کرتاہے۔ اکثر وبیشتر وہاں پر ایسے بھی واقعات پیش آجاتےہیں جو صحافیوں کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ طیب سیف نے ادروں میں موجود کرپشن کے عنصر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن سراعیت کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی اداروں خلاف کسی بھی اخبار یا نیوز چینل پر خبر آتی ہے تو اس کا ردعمل بھی اداروں کے نیچر کے مطابق ہی آتاہے۔ اگر انتظامی ادارے ہوں تو ان کی طرف سے ردعمل اتنا سخت نہیں ہوتا اگر یہ خبر پولیس اور دوسری سیکورٹی ایجنسیز کے خلاف خبر ہوتو اس کا ردعمل انتہائی سخت سامنے آتا ہے اور سیاستدانوں کا بھی ردعمل کا انداز علیحدہ ہوتاہے۔ ہمیشہ بیلنس خبر ہی صحیح صحافت ہے۔ طیب سیف نے پریس کلبز اور یونین آف جرنلسٹ کے کرار پر اعتراض کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی جانب س ردعمل صرف احتجاج تک ہی محدود ہوتاہے
اطہرلشاری کا تعلق بھی بہاولپور سے ہے۔ اطہرلشاری رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ نجی ٹی وی بطور اینکر بھی پروگرام کرتے ہیں۔ اطہر لشاری سے صحافیوں کو درپیش مسائل، دھمکیوں اور فیلڈ میں ہونے والی مشکلات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جب ہم کسی ایسی خبر کو بریک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے ساتھ لوگوں کے مفادات جڑے ہوئے ہوں تو ان کی طرف سے سب سے پہلے کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہمارے تعلق اوررشتہ داروں سے سفارشات کرائی جاتی ہیں۔ اگر ان کی بات نہ مانی جائی تو پھر ان کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہےاورپھر حملہ بھی کردیاجاتاہے۔ اطہر لشاری نے اپنے ساتھ آنے والے واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ کچھ روزقبل بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں سائیکل اسٹینڈ میں لوگوں کو لوٹنے کے حوالے سے سٹوری کی۔ انہوں نے مختلف لوگوں کے ریفرنس سے خبر کو رکوانے کی کوشش کی، میں نہیں رکاتو انہوں نے دھمکیاں بھی دیں اور پھر بھی نہ رکنے پر ان کے ساتھ معاملہ ہاتھا پائی پر جاپہنچا۔ ان کی طرف سے تشدد اور مارپیٹ کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اگر کسی ادارے پر کام کررہے ہیں تو ان کی طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ ان کے خلاف کوئی خبر نہ آئے اگر کوئی خبر چلادی جائے تو اداروں میں داخلہ بند کردیاجاتاہے۔ اطہرلشاری کا کہنا تھا کہ جب بھی مقامی صحافیوں کےساتھ کوئی واقعہ پیش آجاتاہے تو ایسے میں صرف مقامی صحافتی اداروں کی جانب سے ایک مذمتی بیان ہی جاری کیاجاتاہے اور اگر کسی بڑے صحافی کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آجائے تو پھر صحافت پر حملہ قراردیتےہوئے ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے
اطہرفاروق اعوان کا تعلق شعبہ صحافت سے ہے اور بہاولپور میں عرصہ 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ ٹی وی جرنلزم میں ہمیشہ رپورٹرزاور کیمرہ مین کی کوشش ہوتی ہے کہ موقع پر پہنچ کر واقعات کو کیمرہ میں محفوظ کیاجائے تاکہ ٹی وی سکرین پراس کو دکھایاجاسکے۔ صحافی کی خبر کی بھوک اور پیش آنے والے واقعات کے حوالے سے اطہر فاروق اعوان نے کچھ روز قبل ٹی وی جرنلسٹ اور کیمرہ مینوں کےساتھ پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتےہوئے بتایا کہ کچھ روز قبل اینٹی کرپشن کی عدالت میں ایک ایسا مقدمہ پیش آیا جس میں مقامی خاتون سیاستدان عذرا شیخ سے پولیس کے سب انسپکٹرعبدالرزاق نے 9سال قبل 9ہزرروپے رشوت لینے کا فیصلہ آیا۔ فیصلہ میں سب انسپکٹرعبدالرزاق کو سزا دی گئی۔کمرہ عدالت سے باہر عبدالرزاق کی فوٹیج بنانا شروع کی تو اس کے رشتہ داروں نے کوریج کرنے پران سے منسلک کیمرہ مین جنید فاروق، ٹی وی چینل کے رپورٹر امجد سعید اور دوسرے کیمرہ مین بھی موجود تھے۔ عدالت نے پولیس اہلکار عبدالرزاق کو سزا سنائی۔ عبدالرزاق کو گرفتار کرکے لے جانے لگے تو اس کی وڈیو بنانے شروع کی توعبدالرزاق کے ساتھ موجود ساتھیوں نے موبائل اور کیمرے چھین لیےاور ان کو توڑ بھی ڈالا۔عدالت کے باہر تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ عدالتی اہلکاروں نے ون فائیو پر جھگڑے کی اطلاع دی اور مقامی پولیس موقع پر پہنچی۔ پولیس کی جانب سے واقعہ کا مقدمہ ہی درج نہیں کیاجارہا تھا۔ عدالت کے دبائو اورلوگوں کی جانب سے آنکھوں دیکھے واقعہ پر پولیس نے بڑی مشکل کے بعد مقدمہ درج کیا اور مرکزی ملزم سمیت تین افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتاری کے بعد پورا شہر ان کو چھوڑوانے کے لیے امڈ آیا اورپھر گرفتاری کے بعد تشدد رنے والے نوجواں کا تعلیمی کیئریربھی دائوپر لگ گیا۔ پولیس نے دو نوجوانوں کو امتحانات دینے کے لیے چھوڑ دیا جبکہ مرکزی ملزم ابھی تک گرفتار ہے
اطہر فاروق کے واقعہ کی نشاندہی پر واقعہ کی ایف آئی آر کا مطالعہ کیاگیا۔ ایف آئی آر زیر دفعہ 379اور506کے تحت درج کی گئی تھی۔ جو مقامی صحافی امجد سعید کی مدعیت میں درج کیا گیاتھا۔ ایف آئی آر ارباب، ذیشان، مزمل نامی افراد کے خلاف نامزد درج کرائی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے موبائل اورکیمرہ چھیننےاور گراکر خراب کرنے کا ذکر تھا اور ملزمان کی جانب سے سنگین نتائج، جان سے ماردینے کی دھمکیوں اور تشدد کا نشانہ بنانے کا بھی ذکر تھا
اداروں یا اشخاص کے خلاف صحافتی ذمہ داروں پر تشدد کا نشانہ بننے کا ایک اور واقعہ سامنے آنے پر ایف آئی آر کے مدعی امجد سعید سے رابطہ کیاگیا۔ امجدسعید نے بتایا کہ اسپیشل جج اینٹی کرپشن کاسب انسپکٹر عبدالرزاق کے خلاف فیصلہ آنے پر اس کو علیحدہ کیمرے میں بٹھادیاگیا۔ عدالت میں موجود پولیس اہلکاروں کی کوشش کی تھی اس کو میڈیا سے چھپاکرجیل بھجوادیا جائے۔ جس کو گاڑی میں منتقل کیاجارہاتھا تمام کیمرہ مینوں اورصحافیوں نے ویڈیوبنانا شروع کردی۔ ایسے میں عبدالرزاق کےساتھ موجود 12، 13افراد مشتعل ہوگئے انہوں نے کیمرے اور موبائل پکڑلیے اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ ون فائیو پر پولیس کو اطلاع دی گئی اور اینٹی کرپشن آفس کے گیٹ بند کرکے تین ملزمان کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ جیسے ہی تھانے میں پہنچے توان کو چھوڑوانے اور سفارش کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔ صحافیوں کی جانب سے بھی صلح کے لیے دبائو ڈالا گیا۔ مگرتشدد کا مقدمہ بھی درج کرایا گیا اور تین ملزمان کو گرفتار بھی کرایاگیا۔ پولیس نے دو ملزمان ارباب اور مزمل شبیرکو پیپرز ہونے کی بناء پر شخصی ضمانت پر چھوڑ دیا۔
پریس کلب اور صحافیوں کے فورم کی جانب سے صحافیوں کا ساتھ نہ دینے کے الزمات پر بہاولپور پریس کلب کے صدر نصیر ناصر سے رابطہ کیاگیا،، نصیر ناصر نے پریس کلب کی جانب سے صلح کے لیے دبائو کا الزام مسترد کرتےہوئے بتایا کہ پریس کلب نے ہمیشہ اتحاد کا پیغام دیا ہے۔ بہاولپور میں چند روز قبل ہونے والے واقعہ میں بھی اجلاس طلب کرکے مشترکہ لائحہ عمل طے کیاگیا۔ جب بھی کسی صحافی کو دھمکی یا تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے، پریس کلب ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا ہو کر ان کی آواز بلند کرتاہے۔ آپس میں اتحاد ہی مسائل کا بہترین حل ہوتاہے۔پریس کلب کے فورم سے احتجاج، مذمت اور احتجاجی دھرنے بھی دئیے جاتےہیں۔
جب بھی کسی پر تشدد یا حملہ ہوتا ہے یا پھر دھمکیاں دی جاتی ہیں تو ایسے میں سب سے پہلا ادارہ پولیس کا ہوتاہے جس سے صحافی فوری انصاف اور قانون کے مطابق کاروائی ہوسکے۔ پولیس پر عمومی طورپر جانبداری کا الزام لگایاجاتاہے۔ آر پی او بہاولپور عمران محمود سے رابطہ کیاگیا، آر پی او بہاولپور کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، تشدد یا دھمکیوں کی شکایت پر پولیس نے ہمیشہ صحافیوں کا ساتھ دیاہے اور اہیں فوری انصاف کی فراہمی کے لیے پولیس نے مقدمہ درج کرے ملزمان کو بھی گرفتار کیا ہے۔ صحافیوں کی نشاندہی پر ہی پولیس والوں کو امن وامان کی فضاء برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی بہتری کے لیے وہاں کی صحافت بہترین کردار ادا کرتی ہے کیوں کہ مثبت صحافت ہی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے
خبر کی تلاش کی بھوک ہر صحافی کو ہوتی ہے اور اچھی سٹور کی تلاش کبھی بھی ختم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی اطلاع ملتی ہے تو صحافی تمام احتیاطی تدابیر کو بلائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ خبرکی تلاش اور بھوک اپنی جگہ مگر احتیاط تو لازم ہے۔