تحریر،،،،، عاصم صدیق
صحافی کا خون ارزاں نرخوں پر
اپریل 2019میں پاکستان پریس فائونڈیشن کے تحت جرنلسٹ سیفٹی کے حوالے سے تربیت حاصل کی گئی تو اس میں صحافیوں کے ساتھ قتل، دھمکیوں اور تشددکے واقعات کے بارے میں بھی ذکرہوا۔ بلوچستان میں صحافیوں کو مشکلات، قتل، دھمکیوں کے واقعات میں ارشاد مستوئی کا ذکر ہوا تو پھر سے بھولی ہوئی باتیں پھرسے یاد آگئیں اور ارشاد مستوئی کا مسکراتا ہو پر اعتماد چہرہ ایک مرتبہ پھر سے آنکھوں کے سامنے آگیا۔
فروری 2014 میں کوئٹہ میں پی ایف یو جے کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں شرکت کے لیے کوئٹہ پہنچے تو بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر عرفان سعید نے خوش آمدید کہا۔ عرفان سعید کے ساتھ ایک ادارے میں کام کرنے کے حوالے سے پہلے سے ہی رابطہ تھا۔ عرفان سعید کے ساتھ ہی جسمانی طورپر تو کمزور عینک پھینے ہوئے ایک شخص کو دیکھا،، مگر اس شخص پر رہنے والی مسکراہٹ اور چہرے کا عزم بتارہا تھا کہ اس کا حوصلہ بلند ہے۔ اس شخص کا تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ارشاد مستوئی ہیں اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ کوئٹہ میں چاردن کا قیام رہااس قیام کے دوران ارشاد مستوئی کی شخصیت کے بارے میں روز نئی کڑی کھلتی تھے۔ ارشادمستوئی کو ہمیشہ ہمت کا پیکر پایا۔ ارشاد مستوئی کا ایک ہاتھ لکڑ کا تھا۔ مگر کبھی معلوم نہیں ہوا کہ ان ایک ہاتھ مصنوعی ہے۔ ارشاد مستوئی کے ہاتھ کٹنے کے واقعہ کے بارے میں بتایا گیا تو ساتھ ہی اس کے ہمت کی داستان بھی عیاں ہوگئی۔ وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے گوادر میں این ایف سی ایوارڈ کو سائن کرنا تھا ۔ ارشاد مستوئی کوریج کے لیے گوادر گئے تو ہوٹل کی کھڑکی سے سگریٹ پھینکتے ہوئے ہاتھ بجلی کی ہائی وولٹیج تاروں سے ٹکراگیا۔ زندگی اور موت کی کشمکش لڑتے لڑتے اپنے دایاں بازو کھو دیا۔ دایاں بازوکھونے کے بعد حوصلہ نہیں ہارا، بائیں بازوسے ٹائپنگ اور لکھائی کرنا شروع کردی اور پھراپنے حوصلہ سے اپنی کمزوری پر بھی قابو پالیا
28اگست2014 کو گھر میں بیٹھا تھا کہ اچانک ٹی وی پر کوئٹہ میں صحافی پر حملہ میں جاں بحق ہونے کی خبر چلی۔ ٹی وی سکرین پر ارشاد مستوئی کا نام ابھرا تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔ صرف چند ماہ قبل ان کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔ ہنستا مسکراتا اور ہمت کا پیکر ارشاد مستوئی ہم سے جدا ہوگیا۔
ارشاد مستوئی اور اس کے ساتھ جاں بحق ہونے والوں کے انصاف کے رحیم یارخان یونین آف جرنلسٹ کے پلیٹ فارم سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اورپھر کوئٹہ سے چلنے والی ایک پریس کانفرنس جس میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دعوی کیا ارشاد مستوئی کے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے قاتل کو پکڑ لیا ہے۔
ارشاد مستوئی کے ساتھ واقعہ کیوں اور کیسے پیش آیا؟ اس کی کھوج کی خواہش دل میں ابھری۔ ارشاد مستوئی کے دیرینہ ساتھی اور ان کے ساتھ بطور بیوروچیف اور صدر بی یو جے کے ذمہ داری ادا کرنے والے عرفان سعید سے رابطہ کیاگیا۔
عرفان سعید نے بتایا کہ 8بائی 10کے کمرے میں ارشاد مستوئی اپنے ساتھی اکائونٹنٹ محمد یونس کے ہمراہ موجود تھا۔ کہ اچانک کچھ نامعلوم افراد نے دروازے سے داخل ہوتے ہی صرف پانچ سے چھ فٹ کے فاصلے پرفائرنگ کرکے قتل کردیا۔ محمد یونس نے یہ دیکھا تو بھاگنے کی کوشش کی تو حملہ آور نے ان کو بھی کو گولی مار کر قتل کردیا۔ عبدالرسو خاجک ایک ٹرینی صحافی تھا۔ گولی کی آواز سن کر آیا تو حملہ آور نے اس کو بھی قتل کردیا۔
ارشاد مستوئی کے قتل سے کوئٹہ سمیت پورے ملک میں بھونچال آگیا۔ صحافیوں کی جانب سے شہر شہر قریہ قریہ احتجاج شروع ہوگیا۔ ارشاد مستوئی کے قتل کو قتل کیوں کیاگیا کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ بی یو جے اور پریس کلب کے پلیٹ فارم سے احتجاج کیاگیا۔ وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اورصوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی جانب سے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعدوزیر داخلہ سرفراز بگٹی ایک پریس کانفرنس میں ایک گرفتار شخص کا ویڈیوبیان سنایا گیا جس میں اس نے شخص نے اعتراف کیا یہ اس کا تعلق بی ایل اے سے ہے۔ اس نے ارشاد مستوئی اور اس کے ساتھیوں کا قتل بی ایل اے کے سربراہ کے کہنے پر کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ارشاد مستوئی بی ایل اے کی خبریں جاری کرتا تھا۔ اس کے قتل سے ایک تو خوف پھیلے گا اور اس کے قتل بھی سرکاری ادروں پر آئے گا۔ ویڈیو بیان کے کچھ روز بعد معلوم ہوا کہ گرفتار قاتل اپنے ساتھیوں کی نشاندہی کرانے کے دوران مستونگ میں مقابلہ میں جاں بحق ہوگیا۔ حکومت کی جانب سے ویڈیو بیان تو دکھادیا گیا مگر قاتل کو سامنے پیش نہیں کیاگیا۔ جس سے ارشاد مستوئی کے قتل کی وجوہات سمیت کیے سوال تھے جن کا جواب آج تک نہیں معلوم ہوسکا۔ اس کے قتل میں ملوث دیگر ملزمان کی گرفتاری کا کیا بنا یہ بھی ابھی تک سوالیہ نشان ہے جس کے بارے میں کوئی بھی جواب سامنے نہیں آیا۔حکومت کی طرف سے ارشاد مستوئی، محمد یونس اور عبدالرسول خاجک کو دس، دس لاکھ روپے دئیے گئے جو بم دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں کو دیاجاتاہے۔ ہمارے احتجاج کے باوجود اس کی امدادی قیمت میں اضافہ نہیں کیاگیا۔
عرفان سعید کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور کوئٹہ کے صحافی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔بلوچستان میں صحافت سب سے مشکل ہے۔ بلوچستان میں مختلف واقعات میں سب سے زیادہ 40صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ ارشاد مستوئی کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی واقعہ ہوتے رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور کے بعد سے ایسے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ اس سے پہلے نہ ہی پریس کلب بند ہوتے تھے اور نہ ہی دھمکیاں ملتی تھیں۔ بلوچستان کے صحافی بلوچستان اور قبائلی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزدانہ ماحول میں صحافت کرتے تھے۔ بلوچستان میں صحافت کا بلکل بھی ماحول نہیں ہے۔ یہاں قبائلی نظام، علیحدگی پسند، مذہبی کالعدم تنظیموں کی جانب سے خبر نہ چلانے پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور پھر نشانہ بھی بنایا جاتاہےاور پھر حکومت کا پریشر ہوتاہے۔
بلوچستان کے صحافی تمام تنظیموں اور حکومت کے درمیان سینڈوچ بنا ہوتاہے۔ صحافی کو نشانہ بنانا سب سے آسان ہے۔ بغیر کسی ہتھیار کے صرف قلم کی سیاہی سے حق بیان کرنے پاداش میں اس کی جان لے لی جاتی ہے۔ طاقت ور تنظیموں کے سامنے صحافی کی جان کی کوئی وقت نہیں۔ غریب صحافی کے خون کی قیمت صرف ایک گولی ہی ہے۔ صحافی کے قتل کے بعد وہ دوہرا فائدہ اٹھاتے ہیں ایک تو بات نہ ماننے کی سزادی جاتی ہے اور دوسرا دوسروں کو بھی جان بچانے کے لیے خبر جاری کرنے کا خوف بھی پیدا کرتے ہیں
بلوچستان کے صحافیوں کے خون کی ارزاں قیمت صرف چند روپوں کی گولی مقرر ہے۔ بات مانونہیں تو گولی ہی مقدر ہے۔ بلوچستان اورکوئٹہ میں صحافت کے حالات جاننے کے لیے دوسرے صحافیوں سے بھی رابطہ کیاگیا
عیسی ترین کہنا تھا کہ بلوچستان میں دھشت گردی کی لہر میں کالعدم علیحدگی پسند، مذہبی تنظیمیں کہتی ہیں کہ ہماری خبریں کیوں نہیں دیتے اور دوسری جانب ان کی خبروں پر پابندی ہے۔ ایس ہی واقعات میں ارشاد مستوئی بھی شکار ہوا۔ کالعدم تنظیموں کہتی ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں اس کو من وعن شائع کیاجائے۔ اگر ایسا نہ کیاجائے تو ان کی طرف سے دھمکیاں اس صورت میں ملتی ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے بچے کہاں پڑھتے ہیں۔ کوئٹہ کے صحافی دوطرف سے چکی میں پستے ہیں۔
کوئٹہ کے صحافیوں کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے کوئٹہ پریس کلب کے کردار اور عملی اقدمات کے بارے میں جاننے کے لیےکوئٹہ پریس کلب کے صدر صدر رضار رحمان سے رابطہ کیاگیا۔ رضا رحمان کا کہنا تھا کہ صرف ارشاد مستوئی کو نشانہ بنانے کے لیے دو معصوم جانوں کو قتل کیاگیا۔ ارشاد مستوئی کے واقعہ پر ہر فورم میں احتجاج کیاگیا۔ بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاجی کیمپ لگایا اور پریس کلب کو تالے لگائے گئے۔ ہماری کوشش تھی کہ اصل حقائق تک پہنچا جائے۔ اس وقت بلوچستان کے صحافی ذہنی دبائو اور دھمکیوں میں تھے۔ بلوچستان کے صحافی حکومت، کالعدم تنظیموں اور جمہوریت کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان سینڈوچ ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس کو فرنٹ پیج کی کوریج دی جائے۔ صحافیوں نے آمرانہ دور میں ان سیاسی جماعتوں اور جمہوریت کے لیے کام کیا تھا۔ سیاسی جماعتوں کو صرف اپنی کوریج سے غرض ہے۔ انہوں نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ ایک رپورٹراور کیمرہ مین انشورڈ نہیں ہے بلکہ مالک کا کیمرہ مین انشورڈ ہے۔ پریس کلب کے فورم سے ارشاد مستوئی سمیت بم دھماکوں اورٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی مدد کی کوشش کی جارہی ہے۔ پریس کلب کے فنڈز پانچ لاکھ روپے مالیت سے ہر سال شہداء کے بچوں کو تحائف دئیے جاتے ہیں۔ اور پریس کلب کی کوشش ہے کہ شہداء کے بچوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے تمام اخراجات برداشت کرے اس کی کوشش کی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے شہداء کے بچوں کو اگر نوکری دے دی گئی ہیں تو ان کو مستقل نہیں کیاجاتا۔
ارشاد مستوئی شہید کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہیں۔ ارشاد مستوئی کا تعلق سندھ کے ضلع جیکب آباد سے ہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیوہ اور بچے اپنے آبائی علاقہ جیکب آباد میں چلے گئے ہیں۔ باپ کی زندگی میں بہترین سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اب اپنے آبائی علاقہ میں تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بچوں کی والدہ اور وہ خود مخصوص قبائلی نظام میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان سے قبائلی نظام کی وجہ سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا مگر کوئٹہ پریس کلب کی جانب سے ان کا خیال رکھاجارہاہے اور ان کے مسائل کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
کسی کی دھمکی ملے یا ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہے۔ امن وامان کی فضاء برقرار رکھنے اور انصاف دلوانے کے لیے پولیس کا کردار سب سے اہم ہوتاہے۔ صحافیوں کے دھمکیوں اور قتل کی واقعات پر پولیس کے اقدمات جاننے کے لیے ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ سے رابطہ کیاگیا۔ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا تھاکہ کوئٹہ پولیس ہرصورت صحافیوں کا تحفظ چاہتی ہے۔ تمام صحافتی ادروں کی سیکورٹی پر پولیس اہلکار تعینات ہے۔ ہر صحافی کے ساتھ پولیس کو تعینات نہیں کیاجاسکتا مگر صحافیوں کی تقاریب، ایونٹ اور ان کے ادروں کو فول پروف سیکورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ صحافی کو دھمکی کی نشاندہی یا سیکورٹی اداروں کی جانب سے خطرہ کی نشاندہی پر سیکورٹی کو بڑھا دیاجاتاہے۔ پولیس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی بھی واقعہ پیش آنے پر اس کی فوری تحقیقات کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کرے۔ ارشاد مستوئی کے قتل کے بعد اس کے قاتلوں کو پکڑا بھی گیا جو اس بات کا ثبوت کہ پولیس خواہ کوئی کتنا بھی طاقت ور ہو اس کے خلاف اپنا گھیرا تنگ رکھے گی۔
صحافیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سچ کا دامن کبھی نہ چھوڑے۔ مگر سچ نہ برداشت کرنے والے اتنے طاقت ور ہیں کہ ان کے لیے ایک انسانی کی جان کی قیمت صرف ایک گولی ہےجو ارازاں نرخوں پرمل جاتی ہے۔ صحافی ہردور میں سچ بولتا آیا ہے چاہے اس کو جیل یا قلعہ کی قیدوبند کی سزادی جائے یا ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوجائے۔ ایسے میں قتل ہونے والوں کے ورثاء اور باقی صحافی اس بات کی تلاش میں ہی رہتے ہیں کہ زندگی کھودینے والے کو کس بات کی سزادی گئی۔ صحافتی ادارے صرف تین دن کے لیے چینل کا لوگو سیاہ کردیتے ہیں یا اخبارات میں ایک دن کی خبر کے بعد واقعہ کو ہی بھلا دیتے ہیں۔ مگر جانیں گنوانے، مارپیٹ کا نشانہ بننے کے بعد بھی صحافی سچ کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔
Load/Hide Comments