عالمی وبا کرونا سے متاثر ہونے والے اوور سیز پاکستانی

عالمی وبا کرونا سے متاثر ہونے والے اوور سیز پاکستانی

جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان کا رہائشی شکیل احمد گزشتہ پندرہ سالوں (سنہ 2005 ) سے متحدہ عرب امارات، دوبئی میں بسلسلہ روزگار مقیم تھا اور وہاں گاڑیوں کے اسپیئرپارٹس فروخت کرنے والی کمپنی میں ملازم تھا۔ شکیل نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر خراب گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور گاڑیوں کا کام سیکھا۔ شکیل کو ایک جاننے والے نے دبئی آنے اور کام کرنے کئی افر کی اور شکیل نے قبول کر لی۔
شکیل نے بتایا کہ اس نے جو کچھ بھی باہر رہ کے کمایا اس میں اخراجات کے بعد بچ جانے والی رقم اپنے گھر بھیجتا رہا اور جس سے اسکے بیوی بچے گزر بسر کرتے تھے۔ شکیل کے والدین، بیوی اور دو بچے اس کی کمائی کے مرہون منت تھے اور جناح پارک کے ایک چھوٹے گھر میں رہائیش پزیر تھے۔
شکیل کی سالہا سال سے بھیجی ہوئی رقم بطور زر مبادلہ ملک کی معیشت کا بھی حصہ تھی۔


عالمی وبا کرونا ( کووڈ 19) کے آنے سے پہلے بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی محنت مزدوری کر کے اپنی روزی روٹی کما رہے تھے اور جن میں اکثریت ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ کرونا ( کووڈ- 19) کی وبا نے پوری دنیا کے نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیا اور اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا جس سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔
شکیل نے بتایا کہ ہم جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں بسنے والے ہمیشہ اچھے روزگار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں مجبور یہ لوگ بڑے شہر یا کسی عرب ملک جا کر روزگار کمانے پر مجبور ہیں تاکہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
شکیل احمد جو برسوں سے بیرون ملک مقیم تھا اسکی کمپنی نے اسے اپنے ملک واپس جانے کا کہا اور کہا کہ وہ واپس چلا جائے کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام بند ہیں اور اسکو کمپنی کوئی تنخواہ نہیں دے گی۔ شکیل احمد نے کمپنی سے درخواست کی کہ اسے واپس نہ بھیجا جائے کیونکہ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری تھا اور ملک واپس آ کر بھی وہ کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ کمپنی نے اسکی درخواست پر اسے کہا کہ کمپنی اخراجات پورے نہیں کر پا رہی اس لیئے اسکو تنخواہ نہیں دے سکتی اور اسکو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ تاہم منت سماجت کر کے شکیل احمد کو سابقہ معاوضہ سے نصف معاوضہ پر رکھ لیا گیا جو کہ اسکے اخراجات پورے کرنے کے لیے ناکافی تھا۔لاک ڈاؤن کی مدت میں بار بار اضافہ ہونے کے سبب کمپنی مالکان نے حتمی فیصلہ کیا کہ شکیل احمد پاکستان واپس چلا جائے اور جیسے ہی حالات بہتر ہونگے اسکو واپس بلا لیا جائے گا۔ شکیل نے مجبورا ملک واپسی کا فیصلہ کیا اور پاکستان آ کر حالات کی بہتری کا انتظار کرنے لگا۔

پاکستان میں آ کر بھی اس نے کام کاج کے لیئے کوششیں کی لیکن اسکو کوئی کام نہ ملا اور اسکی تمام جمع پونجی ختم ہو گی اور حالات فاقوں تک پہنچ گئے۔ شکیل احمد نے بتایا کہ بطور اوور سیز پاکستانی اسکو توقع تھی کہ حکومت پاکستان انکے مسائل کو سمجھتے ہوئے کوئی ریلیف فراہم کرے گی تاہم کسی نے بھی اس سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی حکومتی سطح پر کوئی مدد فراہم کی گئی۔
اسی طرح عباسیہ ٹاؤن کے رہائشی صفدر خان نے بتایا کہ وہ گزشتہ 23 سالوں سے بیرون ملک مقیم ہے اور وہ مختلف ممالک میں روزگار کے سلسلہ میں جا کر کام کے چکا ہے۔ صفدر نے بتایا کہ اس نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور پھر ہوٹل میں نوکری کر لی۔ اسکے دو چھوٹے بھائی، ایک بہن، بیوی اور تین بچے یہاں پاکستان میں رہتے ہیں جن کے لیے وہ باہر سے اخراجات بھیجتا ہے۔ صفدر خاں نے بتایا کہ وہ کرونا آنے سے پہلے دوبئی میں مقیم تھا جہاں ایک ہوٹل میں وہ چالیس فی صد پارٹنر شپ پر کام کر رہا تھا۔ ابتدا میں وہ اس ہوٹل میں بطور ملازم کام کرتا تھا اور اسکی محنت اور لگن کو دیکھ کر ہوٹل مالک نے پارٹنر شپ کی آفر کی جو اس نے قبول کر لی۔
تاہم کرونا آنے کے بعد حکومت نے لاک ڈاؤن لگا دیا اور اسکا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا اور مجبورا اُسے پاکستان واپس آنا پڑا۔ صفدر نے بتایا کہ اس سے بھی بطور اوور سیز پاکستانی کسی بھی حکومتی ادارے نے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسے مواقع فراہم کئے گئے کہ وہ ملک واپس آ کر کوئی کام کر سکتے اور وہ کسم پرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ صفدر نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ تمام بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی فلاح کے لیے کوئی پروگرام شروع کرے تاکہ وہ اپنا کوئی روزگار کر سکیں۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق سنہ 1971 ء سے ستمبر 2020ء تک، متحدہ عرب امارات میں 39 لاکھ 26 ہزار 6 سو 52 افراد (3926652) روزگار
کے سلسلہ میں جانے والے رجسٹرڈ کیئے جا چکے ہیں۔ بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے مطابق سنہ 1981ء سے ستمبر 2020ء تک ضلع رحیم یار خان سے مختلف ممالک میں جانے والوں کی رجسٹرڈ تعداد 1 لاکھ ، 48 ہزار، 8 سو 60 ہے(148860) ۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے مرکزی آفس میں رابطہ کیا گیا تو وہاں موجود منصور احمد نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات سے کرونا سے متاثر ہو کر آنے والوں کا ڈیٹا انکا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ اکٹھا کرتا ہے۔ منصور نے بتایا کہ اب چونکہ حالات بہتر ہو رہے ہیں تو پاکستانی واپس متحدہ عرب امارات واپس جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا کا ٹیسٹ کروا کر اسکا رزلٹ ائیر لائن کی ڈیمانڈ کے مطابق مہیا کیا جاتا ہے جس کے بعد مسافر کو اجازت دی جاتی ہے۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں تعینات مزمل بسرا دے جب اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیا کہ کرونا کی وجہ سے کتنے بیرون ملک رہنے والے پاکستانی متاثر ہووے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ اسکا جواب جلد دیں گے اور کچھ دیر بعد رابطہ کرنے کا کہا۔ تاہم بارہا رابطہ کرنے پر بھی مزمل بسرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میڈیا کوآرڈینیٹر پنجاب اوورسیزپاکستانیز کمیشن رضوان راٹھور سے جب اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ اوور سیزپاکستانیوں کے مسائل کا فوری اور مکمل حل حکومتی ترجیحات میں شامل ہے۔ رضوان کا کہنا تھا کہ ترجیحی بنیادوں پر اوورسیزپاکستانیوں کے مسائل حل کر رہے ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کے کیسز مقامی انتظامیہ کے بھرپور معاونت سے حل کر رھے ھیں۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ کرونا ایک عالمی وبا تھی جس سے ہر کوئی متاثر ہوا اور اس میں ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھائی بھی متاثر ہوئے جن کے لیئے وزیر اعظم پاکستان ماضی میں بھی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ وزیر اعظم مختلف سربراہان مملکت کو اپنے پاکستانی شہریوں کے ساتھ خصوصی تعاون کا بھی کہتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا سے متاثر ہونے والے اوور سیز پاکستانی نے ان سے جب بھی رابطہ کیا تو انہوں نے ممکنہ مدد فراہم کی۔
انٹرنیشل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق کرونا ( کووڈ 19) کی وجہ سے 59 ہزار 7 سو 83 افراد روزگار کے سلسلہ میں دوسرے ممالک نہیں جا سکے جبکہ 1 لاکھ، 2 ہزار 3 سو 87 (102387) مختلف ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں نے اپنی نوکریاں کهو دی تھیں۔

تحریر۔ بلال حبیب

اپنا تبصرہ بھیجیں