رحیمیارخان (بشکریہ ارود نیوز)31 اگست 2020 کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مختلف محکموں کے 12 سیکریٹریز کی منظوری دے کر جنوبی پنجاب کے انتظامی طور پر تین ڈویژنز پر مشتمل سیکریٹیریٹ کو عملی طور پر فعال بنا دیا تھا۔
اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ یہ سیکریٹری مکمل طور پر بااختیار ہوں گے اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کریں گے۔ صوبائی اور وفاقی وزرا نے اس اقدام کو جنوبی پنجاب کے الگ صوبہ بننے کے سفر میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
تاہم جنوبی پنجاب کے سیکریٹری کا پہلا باقاعدہ تعارفی اجلاس اس فیصلے کے چار ماہ بعد نو جنوری 2021 کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان کی زیر صدارت سرکٹ ہاؤس ملتان میں منعقد ہوا۔
جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا تحریک انصاف کے چند بڑے انتخابی دعوؤں میں سے ایک تھا۔
گو کہ دوسری تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس خطے کو الگ صوبہ دینے کے وعدے کیے، لیکن تحریک انصاف اس میدان میں اس وقت آگے نکل گئی جب قومی انتخابات کے موقع پر جنوبی پنجاب محاذ نے اس میں شمولیت اختیار کر لی اور پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے 90 روز کے اندر الگ صوبہ بنانے کا اعلان کیا گیا۔
اگرچہ 90 روز میں تو کچھ نہ ہو سکا لیکن ملتان اور بہاولپور میں بنائے جانے والے سیکریٹیریٹ سے اس مقصد کی طرف پیشرفت ضرور ہوئی ہے۔
دوسری طرف عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ دو الگ الگ سیکریٹیریٹس کے قیام سے ان کے کاموں میں آسانی پیدا ہونے کی بجائے مشکلات آئی ہیں۔
بہاولپور کے رہائشی ریاض بلوچ نے اردو نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت نے دو الگ الگ سیکریٹیریٹ بنا کر جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اور بھی پریشان کر دیا ہے۔
’ملتان اور بہاولپور کے سیکریڑیز ایک تو با اختیار نہیں ہیں دوسرا ملتان اور بہاولپور میں ایک سو کلومیڑ کا فاصلہ ہے۔ ایک کام ملتان سے ہوگا تو دوسرا کام بہالپور سے۔ ابھی تک کسی بھی سیکریٹری کا دفتر موجود نہیں ہے۔ ملتان، بہاولپور میں ابھی تک سیکریٹیریٹ کی کوئی باقاعدہ عمارت نہیں ہے۔‘
کام اب بھی لاہور سے ہوتے ہیں
صوبائی محکموں سے منسلک کام کروانے والے عملے کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنوبی پنجاب کے لیے الگ سیکریٹیریٹ بنا دیا گیا ہے لیکن کاموں کی حتمی منظوری لاہور میں بیٹھے ہوئے صوبائی سیکرٹری ہی دیتے ہیں۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی ایک سرکاری خاتون ٹیچر نے بتایا کہ محکمہ تعلیم میں اساتذہ کے تبادلے ابھی تک سیکرٹری پنجاب تعلیم کر رہے ہیں۔
میری ترقی ہوئی ہے تو میرا تبادلہ شہر سے دور کر دیا گیا ہے۔ جب میں نے تبادلہ واپس کرانے کے لیے ای ڈی او ایجوکیشن کو درخواست دی تو انہوں نے کہا کہ تبادلہ سیکرٹری تعلیم لاہور کریں گے میرے ساتھ سکول میں پڑھانے والی خاتون ٹیچر نے مقامی ایم پی اے کی سفارش سے لاہور سے تبادلہ کروایا ہے۔‘
محکمہ تعلیم کی طرح محکمہ ایریگیشن سے متعلق کام بھی لاہور میں ہو رہے ہیں۔
رحیم یار خان کے چک 49 پی کے رہائشی عمران حیات نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں ایک معمولی سے کام کے لیے درخواست لاہور بھجوانا پڑی۔
’میں نے اپنی زمین کی کاشتکاری کے لیے پانی کی بندی بنوانا تھی۔ میں نے محکمہ ایری گیشن کے افسران کو درخواست لکھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے سیکریٹری ایری گیشن لاہورکو درخواست دینا ہو گی اور پھر میں نے درخواست لاہور سیکرٹری کو دی۔‘
افسران کی قلت
لاہور میں اردو نیوز کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق حال ہی بنائے گئے جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ کو افسران کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
سول سیکریٹیریٹ لاہور کو لکھے جانے والے ایک خط (جس کی نقل اردو نیوز کے پاس موجود ہے) کے مطابق ’جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو فوری طور پر گریڈ 18 اور گریڈ 19 کے 70 افسران کی ضرورت ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ افسران تقریبا تمام محکموں کے لیے درکار ہیں۔ اور اگران کو جلد تعینات نہ کیا گیا تو اس نوزائیدہ سیکرٹریٹ کو چلانا مشکل ہو جائے گا۔‘
اردو نیوز کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ’بہت سے افسران جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘
انیسویں گریڈ کے ایک افسر، جن کا حال ہی میں ملتان تبادلہ کیا گیا ہے، نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مجھے تو لگتا ہے کہ جان بوجھ کر اس نئے بندوبست کو ناکام کیا جا رہا ہے۔ یا تو حکومت کے اندر سے لوگ ہیں یا بیوروکریسی کے اندر سے۔‘
’میرا تبادلہ ملتان کیا گیا ہے جس کو رکوانے کی میں پوری کوشش کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا تعلق جہلم سے ہے۔ وہاں میرا گھر ہے خاندان ہے۔ آپ مجھے ملتان بھیج رہے ہیں۔ آپ ان افسران کی فہرستیں کیوں نہیں بناتے جن کا تعلق ہی جنوبی پنجاب سے ہے؟ یا آپ لوگوں سے خود پوچھ لیں کہ وہاں کون کون جانا چاہتا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنا تبادلہ وہاں کروانا چاہتے ہیں۔ مجھ اکیلے کو یہ شکایت نہیں ہے۔ میں ایسے بہت سے دوسرے افسروں کو بھی جانتا ہوں جو ملتان والے سیکرٹریٹ نہیں جانا چاہتے لیکن ان کا زبردستی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ کئی افسران نے تو چھٹٰی مانگ لی ہے۔ اگر میرا تبادلہ نہیں رکتا تو میں بھی چھٹٰی کی درخواست دے دوں گا۔‘
واضح رہے کہ جون 2020 میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ کے لیے 385 سیٹوں کی منظوری دی تھی۔ جس میں جنوبی پنجاب کے علیحدہ سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ساتھ ساتھ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی سیٹیں بھی شامل تھیں۔ تاہم ابھی تک اکثر سیٹیوں پرتعیناتی نہیں کی جا سکی۔
تبادلے سے گریز کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ ویسے ہی افسران کی قلت ہے اگر جنوبی پنجاب کی تعیناتیاں پوری کی جاتی ہیں تو مرکزی سیکریٹیریٹ کا چلانا مشکل ہو گا۔
حکومت پنجاب کی ترجمان مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے لیے سولہ محکموں کے سیکریٹریز کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جب کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی بھی تعینات کر دیے گیے ہیں، تاہم وہاں کچھ مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے افسران وہاں جانے سے گریزاں ہیں۔
’ابھی وہاں چونکہ رہائش کا مسئلہ ہے اور قدرتی بات ہے کہ افسران بڑے شہروں میں رہنا پسند کرتے ہیں لیکن وقت کےساتھ ساتھ یہ سب بہتر ہوگا اور جب اختیارات نچلی سطح پہ منتقل ہوں گے تو ایسے مسائل پیش نہیں آئیں گے۔‘
دوسری طرف جنوبی پنجاب محاذ کے صدر اور وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب میں سیکریٹیریٹ صوبہ بنانے میں پہلا قدم ہے اور وہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنا کر ہی رہیں گے۔
تحریر: نذر عباس