رحیم یار خان ( ) خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن رحیم یار خان میں پہلی انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شرکا نے کہا کہ خواجہ غلام فرید کی شاعری میں صوفیانہ درس ملتا ہے، ظلم کے سامنے مزاحمت کرنا اور سچائی کا ساتھ دینا شامل ہے، شرکا نے مزید کہا خواجہ فرید نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے اخلاص اور عمل سے لوگوں میں سہل انداز میں پروان چڑھایا۔
قبل ازیں وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بین الاقوامی و قومی شرکا کا پرتپاک استقبال کیا۔
شرکا میں مجاہد جتوئی، کلیان سنگھ کلیان، ڈاکٹر اختر حسین، ڈاکٹر رخسانہ بی بی (آکسفورڈ)، محمد مرتضی نور، پروفیسر ڈاکٹر قاسم بوگیو، پروفیسر ڈاکٹر نجیب الدین جمال، پروفیسر وفا(ایران)، سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، پروفیسر سلیم مظہر، پروفیسر نجیب جبار اور دیگر مقررین شامل تھے۔
خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں پہلی بین الاقوامی کانفرنس: بیادِ حضرت خواجہ غلام فرید’ سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی سجادہ نشین دربارِ فرید کوٹ مٹھن شریف خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ نے کہا میں یہاں ڈاکٹر سلیمان طاہر کی صورت میں ایک صوفی کو سلام کرنے آیا ہوں جس کے اندر بھی ایک خواجہ غلام فرید چھپا بیٹھا ہے، انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اصل اسلام حضرت داتا گنج بخش، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، حضرت خواجہ غلام فرید، رحمن بابا، مست توکلی، سچل سرمست ، بلھے شاہ، سلطان باہو نے پھیلایا، سب نے نفرت سے پاک اسلام کی بات کی۔
وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر نے کہا کہ وہ خواجہ فرید سکالرشپ کے اجرا کا اعلان کرتے ہیں، ساتھ ہی اکیڈمک کونسل سے منظوری کے بعد “فریدیات” کا ایک باب بھی شامل کریں گے، انہوں نے کہا ہمیں ایسے صوفیا کرام کی تعلیمات کو پروموٹ کرنا چاہئے۔
برطانیہ سے ڈاکٹر رخسانہ بی بی نے کہا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ کرونا صورتحال کے باوجود رئیسِ جامعہ پروفیسر سلیمان طاہر نے ایس او پیز کو فالو کرتے ہوئے زبردست کانفرنس کا انعقاد یقینی بنایا ہے، صوفیا نے برصغیر کی کایا پلٹ دی، اردو زبان کی ترویج صوفیا کرام کی مرہونِ منت ہے، جبکہ دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح سکالرز نے اردو صوفیانہ شاعری پر تصانیف مرتب کی ہیں، کیونکہ عالمی سطح کر تصوف کو خاص اہمیت حاصل ہے،
پروفیسر نجیب الدین جبار نے کہا کہ مجاز میں اجسام تحلیل ہوجاتے ہیں، صوفیا کی طویل فہرست ہے جنہوں نے تصوف کو زندہ رکھا، خواجہ فرید کی شاعری تصوف کے اجسام کا ایک منبع ہے، خواجہ فرید کی شاعری میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور مزمتی انداز ملتا ہے، اس موقع پر پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی سلیم مظہر نے کہا کہ ہمیں خواجہ صاحب اور ڈاکٹر اقبال کی شاعری میں اشتراکیت ملتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ علامہ اقبال اور خواجہ صاحب نے حافظ شیرازی اور علامہ جلال الدین رومی کی شاعری کا بھرپور مطالعہ کیا، اسی وجہ سے خواجہ فرید کی شاعری میں مسائل و مصائب سے چھٹکارے کی امید پنہاں ہے۔
اس موقع پر مجاہد جتوئی نے کہا اس کانفرنس کا انعقاد صوفی اِزم کی جیتی جاگتی تصویر ہے، خواجہ فرید نے ہمیشہ حق سچ کا ساتھ دیا، ظلم اور برائی کو اپنے اخلاق سے زیر کیا، کلیان سنگھ نے کہا کہ صوفیانہ ادب وقت کی ضرورت بن گیا ہے، خواجہ صاحب کی بیش تر کافیاں تلنگ راگ میں کہی گئی ہیں جس کو سکھ مذہب نے اپنے وجود کا حصہ بنایا ہوا ہے، صوفی کے اقوال و اعمال میں کہیں ٹکراو نہیں ہوتا، خواجہ صاحب کے مریدین میں مسلم، ہندو اور سکھ شامل تھے، اسی لئے اگر دیکھا جائے تو سکھ راج میں وزیراعظم، وزیرِ قانون اور قاضی صاحبان مسلمان تھے، ویسے بھی صوفی کے در پر دھرم سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے متاثر کرتا ہے، یہی خواجہ صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھا، جامع خواجہ فرید کے پردھان پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر اس خوبصورت کانفرنس کے انعقاد پر دلی مبارکباد کے مستحق ہیں، انہوں نے خواجہ فرید کی بات اسی دھرتی سے ہی شروع کی ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اختر حسین سندھو نے کہا عشق اپنی ذات و انا کی نفی مانگتا ہے اور یہی عنصر خواجہ غلام فرید کی شاعری کی پہچان ہے، محمد مرتضی نور نے کہا نامسائد حالات کے باوجود بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہی کانفرنس کی کامیابی کا ثبوت ہے، انہوں نے کہا خواجہ صاحب نے ہمیشہ موجودہ حالات کی بات کی، انہوں نے کہا کہ 220 جامعات جنہیں دانش گاہیں بھی کہا جاتا ہے ان میں خواجہ فرید یونیورسٹی واحد یونیورسٹی ہے جو صوفی narrative کو لے کر چل رہی ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسی کانفرنسز کے ذریعے اپنے مقامی کلچر، صوفیامہ فلاسفی اور خواجہ صاحب کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دیں، ہمیں خواجہ غلام فرید سکالرشپ کا اجرا کرنا چاہئے ےتاکہ غریب بچوں کو حقِ تعلیم مہیا کرنا چاہئے، یہی خواجہ صاحب کی زندگی کا درس ہے،
انہوں نے خواجہ فرید سکالرشپ میں پانچ لاکھ عطیہ کا اعلان بھی کیا، خضر نوشاہی نے اس موقع پر کہا کہ انسان جب اندر باہر سے صاف ہوجاتا ہے وہ صوفی ہوجاتا ہے، صوفیا نے زمانی و زمینی فاصلے کم کئے ہیں، بعد ازاں وائس چانسلر پروفیسر سلیمان طاہر نے کانفرنس کے شرکا میں اعزازی شیلڈز تقسیم کیں۔کانفرنس کے تمام شرکا نے کرونا ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا۔