“چولستان میں تعلیمی صورتحال”

چولستان میں تعلیمی صورتحال

چولستان میں تعلیمی سہولیات کا شدیدفقدان ہے ، تقریبا سات لاکھ کی آبادی کے لیے ایک ہائی سکول اور پرائمری بھی دور دور ہی نظر آتا ہے اور سکول کا عمومی فاصلہ دوسرے سے دس کلو میٹر سے زائد ہے ہیں اور وہاں بھی میعاری تعلیم ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں، آئین پاکستان کی شق 25A کے مطابق ہر بچے کو مساوی اور معیاری تعلیم کی فراہمی ریاست کی زمیداری ہے تعلیم صحت ہر بچے تک بہم پہنچانا ہو گی یہی وه بچے جو کل کو ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں باقی وڈیروں اور جاگیرداروں کے بچوں نے سوائے ہم پر حکومت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا اور وه لندن لاہور میں اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے علاقے کے بنیادی مسائل سے آشنائی حاصل نہیں کر پاتے

جب بھی کوئی حکومت اقتدار پر براجمان ہوتی ہے، تو سب سے پہلے بریفنگ میں اپنے ترجیحات میں تعلیم کو پہلے نمبر پر رکھنے کا دعوی’ تو کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہر دور میں چولستان سمیت جنوبی پنجاب بلکہ پاکستان بھر میں تعلیم کا شعبہ مزید بد تر ہوتا گیا، تعلیمی صورتحال مزید زبوں حالی کا شکار ہوتی گیی۔ اس سلسلے میں کچھ سکول چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پیف کے ساتھ بنا رکھے ہیں بدقسمتی سے ان میں میٹرک سے اوپر کا معلم بھی نہیں ملتا وہاں پرائیویٹ ٹیچر کی شکل میں اور کالج کا تو سوچا بھی نہیں جا سکا ۔۔۔ اپ کو کچھ آٹھ دس سکول اسے بھی ملیں گے جہاں سکول کے لیے سرکاری عمارات بھی تعمیر ہوئی مگر اسکول محکمہ کی طرف سے چالو نہ جا سکا اور اب بلڈنگ کھنڈرات کی شکل اختیار کر چکی ہیں بچے ابھی دو دو سو سے زائد ہیں ہر جگہ پے، یہ بھی شاید کسی چولستان پیکج کے تحت بنے ہوں گے اور پھر سسٹم کی نظر ہو گیے آبادی بھی ایک دوسرے سے دور فاصلے پر مختلف ٹیلوں پر آباد ہے ۔۔۔ جب اسکول نہیں وہاں مقامی پڑھے لکھے استاد ملنا بھی محال ہے ، مشکل ضرور ہے لیکن کبھی سنجیدہ کوشش اس طرف نظر بھی نہیں آئی وڈیرے یا بڑ ے زمیندار تو شائد مجموئی چاہیں بھی نہیں کہ مزدور ختم ہوں اور زمینوں کو آباد کرنے کی بیگار بڑھانی پڑ جاۓ ،
لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی جذبے والے موجود ہیں اس اسکول کو آباد کرنے والے جو پڑھ لکھ کر اپنی زمینوں پر اتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ ایسا بھی کر دیتے ہیں جسے دیکھ امید کی کرن جاگ جاتی ہے اور خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے اور یقین مزید کامل ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ انتہائی نا کافی ہے حکومتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ہر بچے ہر گھر تک چولستان میں بچہ پڑھانا ہو گا ۔۔اسکول بنانے ہوں گے ، سرکاری سطح پر قابل استاد بھرتی کر کے اسکول بنانا بہت ضروری ہے تعلیم کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات نا کافی کہنا غلط ہو گا بلکہ سرے سے موجود ہی نہیں ۔۔۔
ملکی تعلیمی نظام پر تو بارہا بات کرتے رهتے ہیں ، اور آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی بات اور واقعات دیکھنے کو ضرور ملتے ہیں جن سے اس نظام پر افسوس ہوتا ہے بلکہ یہاں افسوس کا لفظ استعمال کرنا اس لفظ کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ ہمارے نظام میں ان گنت خرابیاں ہیں ان کو بہتر کرنے کے لئے سجنیدہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ مساوی و فلاحی ریاست کا قیام ممکن بنایا جا سکے اور تمام بچوں کو یکساں مواقع مہیا کیے جا سکیں جس کی اثرات کی ملکی ترقی کے لیے بہت ضروری ہیں۔

تحریر : فرحان عامر

اپنا تبصرہ بھیجیں