ملتان میں قتلِ آم”

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا

ملتان میں قتلِ آم

مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی یہ قتل ِ آم ( عام) میرے ملتان میں ہوا ہے؟
جب سے سوشل میڈیا پر آم کے باغات پر چلتی مشینی آریاں دیکھی ہیں لگتا ہے دل پر چھریاں چل رہی ہوں۔ پورے ملک سے احتجاج ہوا ہے کہ ملتان جسے آموں کی دھرتی کہا جاتا ہے وہاں بیدردی سے سب کچھ اجاڑ دیا گیا ہے تاکہ وہاں تعمیرات کی جا سکیں۔کچھ برس پہلے میں ملتان گیا تو مجھے بڑا دھچکا لگا تھا‘یہ وہ ملتان نہیں تھا جو 1998ء میں چھوڑ کر اسلام آباد آن بسا تھا یا وہ شہرجو میں نے 1991ء میں دیکھا تھا جب ملتان یونیورسٹی داخلہ لینے لیہ سے آیا تھا۔ ملتان اگرچہ بہت گرم علاقہ ہے لیکن اس کے لوگوں کے اندر ایسی محبت اور گرم جوشی ہے کہ آپ ملتان سے نکل جاتے ہیں لیکن ملتان آپ کے اندر سے نہیں نکلتا۔ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں کہ میں جہاں ہوں اس میں اللہ کی مہربانی کے بعد جہاں والدین‘ بہن بھائیوں‘ رشتہ داروں کا ہاتھ ہے وہیں ملتان اور میرے ملتانی دوستوں اور محسنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ ملتان کی دھرتی میں جو پیار‘ محبت اور مروت ملی وہ کہیں نہ مل پائی۔
ملتان میں ہی مجھے باقر شاہ اورچوہدری نیاز جیسے درویش ملے۔
چند برس قبل اسلام آباد سے ملتان گیا تو اپنے دوست شکیل انجم سے کہا کہ میں نے اپنے دوست سعود نیاز کے گھر جانا ہے۔ شکیل نے کہیں سے پتا کرایا کہ وہ اب شیرشاہ روڈ پر کسی سوسائٹی میں رہتے ہیں۔ شکیل نے اپنا ڈرائیور ساتھ بھیجا۔
میں نے کہا:یار ڈھونڈ لوں گا۔
شکیل ہنسا اور بولا: بھائی جان یہ وہ ملتان نہیں جو تم چھوڑ گئے تھے۔ ملتان شہر جس کے گرد کھیت تھے اور ہر طرف آموں کے باغ نظر آتے تھے‘وہ کھلی فضائیں جہاں سے ٹھنڈی ہوائیں چلتیں یا پورا آسمان نظرآتا تھا وہ سب اب اونچے اونچے گھروں میں بدل گئے تھے۔


اُن دنوں بھی بوسن روڈ پر آموں کے درختوں کا قتل ِعام جاری تھا۔ زرعی زمین تیزی سے سیمنٹ اور سریا کی نذر ہورہی تھی۔ اُس شام میں بڑا ڈپریس تھا‘ میں شکیل انجم سے لڑا پھر جمشید رضوانی اور شاکر حسین شاکر سے بھی لڑ پڑا کہ آپ کیسے اس ملتان کے محافظ ہیں‘ یہاں تو ککھ نہیں بچا‘ پورا ملتان درختوں اور چھائوں سے محروم ہوگیا اور آپ لوگ کچھ نہ کرسکے۔ کسی ملتانی کو خیال نہ آیا کہ اس شہر کو درختوں کی ضرورت ہے۔شہر کے قرب و جوار میں درخت لگانے کی اجازت تو دی جاسکتی ہے درخت کاٹنے یا زرعی زمین کو کمرشل یا ہاؤسنگ کا درجہ دینا غیرقانونی اور جرم ہونا چاہئے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک بھر کی وہ سب زمینیں جو اناج اگاتی ہیں ان کو کسی اور مقصد کیلئے استعمال کرنا غیرقانونی ہوتا۔ اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ آپ کسی شہر چلے جائیں تو لگتا ہے انسانوں کی فوج ہے جس نے یہاں رہنا ہے۔ لاہور موٹر وے سے اسلام آباد کی طرف سفر کریں تو میرے جیسے دیہاتی کے آنسو نکل آتے ہیں۔ اتنی خوبصورت زرعی زمین کو تعمیرات میں بدل دیا گیا ہے۔اب تو لاہور کے قریب نیا شہر بنایا جارہا ہے جس بارے کہا جارہا ہے اس کیلئے ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ کسانوں سے خریدا جارہا ہے۔ وہ علاقے جو چاول کی کاشت کیلئے مشہور ہیں یا جہاں چاول کاشت ہوسکتا ہے وہاں اب سریا‘ سیمنٹ اور لوہے کا راج ہوگا۔ کسی کو کوئی احساس نہیں کہ ہم نے ابھی ابھی روس سے تیس لاکھ ٹن سے زائد گندم منگوائی ہے‘ کاٹن بھارت سے منگوا رہے ہیں ‘ چینی کے جہاز برازیل سے لد کر پاکستان پہنچ رہے ہیں اور دالیں کئی سالوں سے پاکستان درآمد ہورہی ہیں۔ پاکستان1980-90ء تک کاٹن بیچتا تھا آج بھارت اور دیگر ملکوں سے خرید رہا ہے۔ اس ملک میں بیس پچیس سال پہلے تک 75 فیصد بجلی پانی سے پیدا ہوتی تھی اور سستی تھی آج بیس فیصد سے بھی کم پانی سے پیدا ہورہی ہے۔اس کی جگہ تیل سے بجلی پیدا کی جارہی ہے جس کا ایک یونٹ تیس روپے سے بھی زائد پڑ رہا ہے۔ انہی حکمرانوں نے اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے بجلی گھر لگا کر ملک میں ڈیم نہ بننے دیے جن سے سستی بجلی پیدا ہوتی اور یہ قوم آج سرکلر ڈیٹ کے تین ہزار ارب کی مقروض نہ ہوتی اور نہ آج مہنگی بجلی کو ہم رو رہے ہوتے۔ پانی سے بجلی ‘جس کا ایک یونٹ ایک روپے سے بھی کم میں پڑتا تھا‘ اسے نظر انداز کیا گیا‘پورا ملک اب تیل امپورٹ کر کے مہنگی بجلی بنا رہا ہے ۔ ہم نے تباہی خرید لی لیکن پانی سے بجلی کی طرف توجہ نہ دی کیونکہ تیل مافیا نے کمیشن کھانا تھا اور مہنگے تیل کے بجلی گھر لگا کر مال بنانا تھا۔آج وہی کچھ زراعت کے ساتھ ہورہا ہے۔ پاکستان جو دنیا بھر میں گندم‘ کپاس اور چینی بیچتا تھاآج اس کی زراعت تباہ ہوچکی ہے۔کسانوں کو ان کا مناسب معاوضہ نہ ملا تو وہ زمینیں بیچ کر شہروں کا رخ کرنا شروع ہو گئے تاکہ مزدوی ڈھونڈ سکیں۔ زرعی زمینیں تعمیرات کی نذر ہو ئیں اوران زمینوں سے فارغ ہونے والے کسان اور مزدور شہروں میں پہنچ گئے۔ ایک طرف زرعی اجناس کم پیدا ہونا شروع ہوئیں تو دوسری طرف دیہاتوں میں غربت اور بیروزگاری بڑھی اور سب شہروں کو دوڑے اور شہروں میں آبادی اور مسائل پھوٹ پڑے۔ کسی کو آبادی روکنے کا خیال نہ آیا کہ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہی ہے اس کا انجام کیا ہوگا۔ کرنا یہ چاہئے تھا کہ فوری طور پر زرعی زمینوں پر تعمیرات کو روکا جاتا اور اگر نئی آبادیاں بنانا بھی تھیں تو دس پندرہ ایکڑ پر بیس بیس منزلہ عمارتیں بنانے کی اجازت ہوتی تاکہ زمینیں بچائی جا سکیں۔
مجھے حیرانی ہوتی ہے اس ملک کا کیا بنے گا۔ اب تک اگر خونیں انقلاب نہیں آیا تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ زراعت کی وجہ سے اب بھی بھوکے نہیں مرتے۔ جس دن بھوکوں کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی‘ گندم کیلئے کھیت کم پڑگئے تو لوگوں کو چھت کے بجائے پیٹ کا درد شروع ہوگا۔ چھت کے بغیر تو انسان ہزاروں سال سے اس دھرتی پر رہتے آئے ہیں لیکن کوئی ایسا سال نہیں جب اناج کے بغیر کوئی تہذیب زندہ رہی ہو۔ ہم اپنے دشمن خود بن چکے ہیں۔
یہ کہنا کافی نہیں کہ کسانوں کی مرضی انہوں نے کھیت فروخت کر دیے۔ یہ نیشنل فوڈ سکیورٹی کا ایشو ہے۔ یہ ریاست کی سکیورٹی کا ایشو ہے۔ یہ اس ملک کی بقا کا سوال ہے۔ایک دیہاتی ہونے کے ناتے مجھے علم ہے کہ کسی بھی کسان کیلئے اس کی زمین کتنی اہم ہوتی ہے۔ مجھے یاد آیا بچپن میں ایک آم کا پودا لگایا اور جب وہ بڑا ہونے لگا تو مجھے وہی خوشی محسوس ہوئی تھی جو برسوں بعد اپنا بیٹا پیدا ہونے پر ہوئی۔ میں گھر کی حویلی میں اس چھوٹے سے پودے سے نکلتی کونپلوں کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتا کہ آج بھی حیرانی ہوتی ہے۔ اس پودے پر تنکوں کا ایک چھوٹا سا ٹوکرا رکھ دیا تھا تاکہ کوئی بکری وغیرہ اس پر منہ نہ مارے۔ روز صبح اُٹھ کر اس ٹوکرے کو ہٹا کر اندر دیکھتا کہ آج کتنے پتے مزید اُگ آئے ہیں۔گائوں میں کھیتوں میں درخت لگانا اور انہیں اُگتے دیکھنا ایک ایسا تجربہ ہے جو شہری بابوز محسوس کر ہی نہیں کر سکتے‘ لیکن جب آپ کے بچوں کی طرح پیارے درخت ایک ایک کر کے کٹ رہے ہوں اور ریاست خاموش ہو تو سمجھ لیں ہمارا انجام کیا ہوگا۔ ہزاروں آم کے درخت کاٹ کر ہم نے اپنے پیٹ چاک کیے ہیں۔ملتان کی بدقسمت تاریخ ایسے قتل عام سے بھری ہوئی ہے۔
پچھلے دو سو سالوں میں پہلے رنجیت سنگھ کی فوجوں نے ملتان میں قتلِ عام کیا‘پھر انگریزوں نے کیا جب ملتان کے گورنر دیوان مول راج نے مزاحمت کی اور اب تیسرا قتل آموں کے باغوں کا کیا گیا ہے۔بڑے عرصے تک ملتان رنجیت سنگھ اور انگریز فوجوں کے قتلِ عام سے نہیں سنبھل سکا تھا اور یقین کریں سنبھل ان باغوں کے قتل ِعام سے بھی نہیں پائے گا,
(کاپی پیسٹ)

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا

اپنا تبصرہ بھیجیں