شہیدذوالفقار علی بھٹو کی یاد میں
“تحریر” نتاشہ دولتانہ
جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی
جنوبی پنجاب
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت پاکستان کی سیاسی تاریخ میں افسانوی کردار کی حامل ہے۔ کوئی بھی سیاسی بحث ذوالفقار علی بھٹو شہید کے تذکرے بغیر نامکمل محسوس ہوتی ہے۔ انہیں پاکستان کی کروڑوں عوام میں سیاسی شعوربیدار کرنے کے جرم کی باداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے سیاست کو محلات سے نکال کر گلی کوچوں ،کھیتوں کھلیانوں او رمزدوروں جھونپڑیوں تک پہنچا دیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے اور عالم اسلام کو اس پلیٹ فارم پر متحدکرنے کےلئے جدو جہد کی اور عوام کو ظالمانہ نظام سے چھٹکارا دلانے اور انہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کا حوصلہ دیا۔یہی وجہ ہے کہ عوام دشمن اور ملک دشمن قوتوں نے ان کے خلاف سازش کی اور ایک ڈکٹیٹر کو استعمال کرتے ہوئے انہیں جھوٹے مقدمہ میں ملوث کرکے سزائے موت دی ۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو جسمانی طور پر مارنے والوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے افکار و نظریات کو ختم نہ کر سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور پاکستان کے عوام ان کے افکار کو ہی اپنے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کا دور حکومت 20 دسمبر1971 سے 4 جولائی 1977 تک محیط تھا ۔ انہوں اس قلیل عرصہ میں ملکی ترقی کا سفر پیچھے سے شروع کیا اور صرف 6 سال کی کم مدت میں اسے بام عروج تک پہنچایا۔ ملکی ترقی و خوشحالی کے بہت سے منصوبے شروع ہوئے اور پایہ تکمیل کو پہنچے۔ مملکت خداداد کے تمام اہم ادارے بھٹو کے عہد حکومت میں ہی تشکیل پائے ۔ان منصوبوں میں سر فہرست پاکستان کا ایٹمی پروگرام ، سٹیل ملز، معیشت کی بحالی ، تعلیمی اداروں کا وسیع جال ، زرعی اصلاحات، میڈیکل کالجز ، انگریزی خطابات کا خاتمہ ، محنت کشوں کا تحفظ ، عوامی سیاسی شعور کی بیداری اور افرادی قوت کی بیرون ملک برآمد شامل ہیں۔انہی کے دور حکومت میں ہی ملک کو متفقہ آئین نصیب ہوا۔ان کا ایک اور انمٹ کارنامہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دےنا ہے سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صدر ایوب کے دورحکومت میں وزارت خارجہ سے استیفی دے کر عوام سے رجوع کیا اور جلد ہی عوام کے دلوں میں بس گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی وزارت خارجہ سے استیفی کو امریکی ان بن ہی کے تناظر میں دیکھا گیا۔ تمام ترقی پذیر ممالک انہیں ایک سامراج دشمن رہنما کے طور پر جانتے اور مانتے تھے کیون؟اس لئے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے ہر موڑ پر ان کی جنگ بیباکی وبے جگری سے لڑی ۔ برٹرینڈر سل کا ایک اور خط بھی ، جو انہوں نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر کو لکھا ، بہت اہم ہے
” میں نے امریکا کی ان کوششوں کو بڑی تشویش کے ساتھ دیکھا ہے جو وہ ایسے رہنماﺅں کو تباہ کرنے کے لئے کرتا ہے جو بیرونی لوٹیروں اور مغربی ملکوں کے دباﺅ کی مزاحمت کرتے ہوئے اپنی قوم کے مفادات کو آگے بڑھانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ گھانا اور انڈونیشیا میں بھی یہ سازشیں ہو چکی ہیں، اور اگر آپ پوری طرح باخبر نہ ہوتے تو یہی کچھ متحد ہ عرب جمہوریہ میں ہو سکتا تھا۔ حال ہی میں امریکا اور برطانیہ نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو وزارت خارجہ سے علیحدہ کرانے کےلئے زبردست دباﺅسے کام لیا۔ مسٹر بھٹو، بلا شبہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کے معمار ہیں۔ مسٹر بھٹو نے تن تنہا افریقی اور ایشیائی استحکام کے لئے جدوجہد کی اور متحدہ عرب جمہوریہ کے ساتھ تعلقات میں اضافے کے لئے کئی خطرات مول لئے”
برٹرینڈر سل کے ےہ الفاظ شہید ذوالفقار علی بھٹوکی آزاد خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔شہید ذوالفقار علی بھٹوکا ایک اور عظیم کارنامہ شملہ معاہدہ ہے۔ شملہ معاہدہ جس پر جناب بھٹو نے برسراقتدار آنے کے 6 ماہ بعد دستخط کئے برصغیر ہی نہیں جدید تاریخ عالم کا ایک اہم واقعہ ہے ۔ عام طور پر آج کے دور میں مذاکرات کی میز پر کھوئے ہوئے علاقے لینے کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ بر صغیر کی تاریخ میں یہ معاہدہ اپنی مثال آپ تھا اس سے قبل بھارت اور پاکستان کے مابین اہم مسائل پر دو طرفہ مذاکرات میں ایسے دورس نتائج کی حامل مفاہمت کبھی نہیں ہوئی تھی۔شملہ معاہدہ امر واقعی کے اعتبار سے بھارت کے سیاسی ماہرین کے پورے جھتے پر ذوالفقار علی بھٹو کی انفرادی ، سفارتی ، عظمت و ذاتی صلاحیت کی برتری کا ثبوت ہے۔
آج شہید ذوالفقار علی بھٹوکی 42 ویں برسی منائی جارہی ہے آج کے دن پیپلز پارٹی کے کارکن انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے ان کے مزار پر حاضری دیں گے اور یہ عہد کریں گے کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹوکے افکار اور نظریات کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانے کے لئے اپنی اصولی جنگ جاری رکھیں گے ۔