“کتاب کا دن اور کتاب دوست ”
کتابیں علم حاصل کرنے کا بہترین زریعہ ہیں لہزا کتابوں سے دوستی رکھیں تاکہ شعور ،علم اور حکمت و دانش سیکھ سکیں۔
ایک سروے کے مطابق % 85 لوگ پاکستان میں زندگی بھر لائبریری نہیں جاتے لیکن وہ سنیما ، بازاروں اور مزاروں پر اکثر جاتے رہتے ہیں۔ کتابیں بہرحال اپنے گھر اور زندگی کا لازمی جزو بنائیں تاکہ اگلی نسل کو اس کی عادت پڑھ سکے۔
کتاب کے عالمی دن کے حوالے ہے اور اس کی اہمیت کو اجا گر کرنے کے حوالے سے صادق کلب کے لان میں اکمل شاہد کنگ کی کتاب میرا عشق ہے پاکستان کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گیی جس کو رزش لیاقت پوری نے خوبصورت انداز میں سجایا اور رحیم یار خان کے تمام لکھاریوں و کالم نگاروں کو ایک چھت تلے جمع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ، بہت حیرانگی ہوئی کہ ابھی بھی انتے لوگ کتابیں لکھ رہے ہیں اور شایع بھی کروا رہے ہیں
“میرا عشق پاکستان ” کے حوالے سے شرکاء محفل نے اپنے بھرپور خیالات کا اظہار کیا اور کہا .ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے رحیم یار خان ضلع کو اکمل شاہد کنگ کی صورت میں ایک بہترین لکھاری نمائندہ ملا جس نے ہر شعبے میں تاریخی کام کیے وه ثقافت ہو ، سرسبز پاکستان ہو یا امن و امان کی بات ہو یہ ہمیشہ ہمارے گروپ کی لائن سب سے پہلے پاکستان پے کام کرتے ہیں اس موقع پر جنوبی پنجاب کے مشہور کالمسٹ و صحافی تحسین بخاری جن اعزاز میں بھی کچھ دن پہلے انہی دوستوں نے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا تھا وه بھی مسلسل کتاب اور قلم کے لیے کام کر رہے ہیں اسی طرح بھرے مجمعے میں کہنہ مشق صحافی عمران مقصود کی ادب و صحافت کے لیے خدمات پر صاحب صدر کی بات چیت اطمنان کا باعث تھی تقریب کا دوسرا پہلو معروف سیاسی و سماجی رہنما چودھری فاروق ورائچ کی قلم قبیلے کی رہنمائی اور شہر کی صفائی کے حوالے سی کیے گے اقدامات پر سیر حاصل گفتگو تھی وه بھی ایک کمال شخصیت ہیں جو پینتیس سال امریکہ میں بھی وطن کی خوشبو سے سرشار رہے اور اتے اتنا سب ہونے کے باوجود بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ وه وہاں پے مالی کا کام کرتے رہے اور جلدی حدف حاصل کرنے کے لیے دوہری شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور محنت اور ایمانداری کو شعار بناے رکھا اور آج پاکستان آ کر بھی سارا دن بلدیہ کے صفائی والے عملے گٹروں کی صفائی والے و بیلداروں کے ساتھ نظر اتے ہیں اور ان کے لیے حفاظتی سامان دینے کی جدوجہد بھی کرتے ہیں ہمارے دوست فہیم رضا کو بھی تقریب کو کامیاب بنانے کیلئے اپنی تمام توانائیاں بروے کار لاتے دیکھا گیا اور افضل شاہد کنگ نے اپنی بھائی کے صحافتی جنون اور شوق سے بھی حاضرین کو اگاہ کیا اس میں کوئی شک نہیں اس طرح کی تقریبات مشرے میں بھائی چارے کی فضا ، رواداری اور علم و ادب کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور معاشرے میں شعور اجاگر کرنے میں سنگ میل کی حثیت رکھتی ہیں
کرونا تو گزر ہی جاۓ گا اور پھر نہیں آئے گا مگر اپریل ہمیشہ آے گا اور آتا ہی رہے گا ۔۔۔اور پھر بھلا کتاب سے بڑھ کر ہے کیا اچھا اس زمانے می؟ ہم خوش قسمت بھی ہیں کہ کتابوں کا ڈوبتا سورج ہمارے سامنے غروب ہونے کو ہے ہماری نسل آخری شاہد ہو گی کتابوں کے زمانوں کی ۔۔۔ اگر سوچیں تو کتاب بھی محبت جیسے جذبے سے بھرپور جو صرف زندگی بھر دیتی ہے,
تحریر : فرحان عامر