بہاولپور( ) دارالسرور بہاولپور پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے جسے درسی کتابوں میں کبھی وہ جگہ نہ مل سکی جس کا وہ حقدار تھا۔ قیام پاکستان اور استحکام پاکستان میں بہاولپور کے کردار اور خدمات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جسے یہاں دہرانا مقصود نہیں۔
البتہ اس کے ایک پہلو کا اجمالی تعارف ضروری ہے کہ یہ خطہ قیام پاکستان سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی علم وادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ اچ کی فیروزیہ یونیورسٹی سے جامعہ عباسیہ اور بعد ازاں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تک علم دوستی کی ایک صدیوں پرانی روایت پروان چڑھتی رہی ہے۔ اس روایت کو بہاولپور کے آخری علم دوست نواب سر صادق محمد خان عباسی نے بہاولپور میں ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر میں تعلیمی اداروں کو گراں قدر عطیات کے ذریعے پروان چڑھایا۔ بہاولپور میں انہوں نے 1925 میں جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کی جو 1950 میں جامعہ اسلامیہ اور 1975 میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے نام سے ایک چارٹرڈ یونیورسٹی بن گئی جس میں قدیم اور جدید علوم وفنون اور سائنس کی تعلیم کی سہولیات میسر تھیں۔ نواب صاحب نے جامعہ عباسیہ اور جامعہ اسلامیہ کے لیے جو جائیداد وقف کی تھی وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو منتقل ہو گئی۔ اس جائیداد میں سے شہر کے وسط میں واقع چھبیس ایکڑ رقبے پر محیط عباسیہ کیمپس بھی شامل ہے جس کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد 1950 میں رکھا گیا۔ قدیم طرز تعمیر کی امین سرخ اینٹوں سے بنی یہ خوبصورت عمارت اور اس کے گرد خوبصورت لان اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی علمی روایت اور خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے علاوہ اس یونیورسٹی کا شناختی نشان ہے۔
تاریخی عمارات اور ان سے وابستہ روایات کے ساتھ علاقے کے لوگوں کی جذباتی وابستگی ہوتی ہے اور ان کے اجتماعی احساسات ایسے ثقافتی ورثے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ عمارت بھی خطہ بہاولپور کے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے والی ایک نمائندہ عمارت ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ حکومت پنجاب کو سرائیکی صوبے یا جنوبی پنجاب صوبے کے قیام سے پہلے ایک جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام کی خواہش ہے اور ان میں سے چند دفاتر بہاولپور میں بنائے جائیں گے۔ فزیبلیٹی رپورٹ تیار کرنے والوں نے اس کے لیے آسان ہدف اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے عباسیہ کیمپس المعروف بہ اولڈ کیمپس کو سمجھا اور اس کیمپس کو جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے دفاتر میں تبدیل کرنے کی سفارش کر دی گئی۔
یہ خبر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کے علاوہ بہاولپور کے عوام کے لیے حیران کن تھی کہ بہاولپور کے اس تاریخی، تہذیبی ، ثقافتی اور علمی ورثے کے علاوہ سرکاری دفاتر کے لیے پورے شہر میں کوئی اور جگہ میسر نہ ہو سکی؟ بس یہی ایک کمزور ہدف تھا جس پر نشانہ سادھ لیا گیا۔ یہ تاریخی عمارت قطعاً کوئی کمزور اور لاوارث ہدف نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ لاکھوں افراد کی کی جذباتی وابستگی ہے جنہیں چھیڑنا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہوگا۔ اس کا ردعمل افسران کے ساتھ ساتھ ایسے منتخب نمائندوں کے حق میں بھی نہیں ہو گا جو اس عمل کے تجویز کنندہ یا حامی ہیں ۔ یہ تجویز عملی طور پر بھی یونیورسٹی کو کمزور اور بے وسیلہ کرنے کا سبب بنے گی۔ قانونی طور پر یونیورسٹی کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری سنڈیکیٹ کے پاس ہے۔ یہ کسی فرد واحد کا اختیار نہیں کہ وہ یونیورسٹی کے اس تاریخی ورثے کو اپنے تئیں کسی کے حوالے کر دے یا اسے تعلیمی مقاصد کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے استعمال کر سکے۔ اور یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ یونیورسٹی کے چالیس ہزار سے زائد طالب علموں، دو ہزار کے لگ بھگ اساتذہ اور ہزاروں غیر تدریسی عملے کے مفادات اور جذبات کو اور بہاولپور کے لاکھوں عوام کے احساسات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی ایسا فیصلہ کر سکے جس پر عمل درآمد ممکن نہ ہو۔
عباسیہ کیمپس میں اسوقت جامعہ کی فیکلٹی آف لا اور شعبہ امتحانات سمیت تقریباً دو درجن سے زائد مختلف انتظامی شعبہ جات، کھیلوں کے میدان، طلباء کے رہائشی ہاسٹلز، جامعہ کا گیسٹ ہاوس، جامعہ کا بینک اور مرکزی ٹرانسپورٹ آفس اور بسوں کے پورے فلیٹ کی مرکزی پارکنگ کے علاوہ پاکستان گیلری اور علامہ غلام محمد گھوٹوی ہال اور اکیڈمک کونسل اور سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کے لئے مرکزی کانفرنس روم موجود ہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں یونیورسٹی میں داخلوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے موجودہ انفرا سٹرکچر کو مکمل طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور چالیس ہزار سے زائد طالب علموں کی تدریسی اور رہائشی ضروریات
کی تکمیل کے لیے مزید عمارات درکار ہیں۔
موجودہ حکومت کے دعوے تو یہ تھے کہ وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ھاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کردیا جائے گا لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہنے لگی ہے کہ یونیورسٹی کو سرکاری دفاتر میں تبدیل کرنے کے احکامات جاری کئے جا رہے ہیں۔ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور و گورنر پنجاب جناب چوہدری غلام سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار، وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو اس صورتحال کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور کسی جونئیر افسر نے خود سے ہی یہ تجویز آگے بڑھا دی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کے علم میں جیسے ہی یہ تجویز آئے گی وہ فوراً اسے رد کرتے ہوئے اس علم دشمن اور تاریخ دشمن فیصلے کو منسوخ کر دیں گے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
جاوید چانڈیو