خواجہ سرا اور ہمارا معاشرہ
کوئی بھی قوم ، معاشرہ ، تعلیم کے بغیر نا مکمل ہے جب تک تمام لوگوں کو مساوی تعلیم نہ دی جاۓ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کا پہلا اسکول قابل ستائش ہے۔
تیسری جنس کے افراد کیلئے پہلا اسکول گورنمنٹ کمپری ہینسو اسکول ملتان میں شام چار سے چھ بجے تک کھول دیا گیا ہے ۔۔ نہایت قابل تعریف ہے اور ہر شہر میں ایسا ایک اسکول ہونا چاہئے جہاں کوئی انکو اوے ہیجڑے ۔۔ اوے کھسرے کہ کر نہیں بلکہ انکا نام لے کر پکارے ۔۔
ملتان میں کھلنے والا پہلا سکول جو خواجہ سرا کے لیے ہے۔گو یہ بہت خوش ائند بات ہے مگر۔۔۔۔
مجھے اس دن کا انتظار ہے جب خواجہ سرا ہر لڑکے لڑکی کی طرح کسی بھی سکول میں داخلہ لے کر مل کر پڑھیں گے۔۔۔ تعلیم حاصل کرنے والوں کو کچھ نہ کچھ وظیفہ بھی دینا چاہئے اگر کسی کا ذریعہ معاش فلوقت نہیں ہے ۔۔
میری اساتذہ اور انتظامیہ سے درخواست ہے کہ ایسے سکولز میں فنی تعلیم بھی ساتھ ساتھ دی جائے تاکہ صرف ڈگریاں لے کر یہ نہ نکلیں بلکہ ہاتھ میں فن بھی ہو !!
ہر انسان کو کامیاب انسان بنایا جا سکتا ہے مثال کے طور پر
28 سالہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل نیشا راؤ جو صبح بھیک مانگتی اور شام کو کالج جاتی تھی اب کراچی میں وکیل بہیں سندھ مسلم لا کالج سے وکالت کی ڈگری حاصل کی اور اب وہ خواجہ سراؤں سمیت دیگر افراد کے کیسز لڑتی ہیں، نیشا راؤ اپنی کمیونٹی کی مدد سمیت دیگر سماجی کاموں بھی بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ خواجہ سراؤں کو پاکستان میں سب سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا ہے، انہیں گھر میں رکھتے ہوئے سب کو شرم محسوس ہوتی لیکن ان کے جنسی استحصال کو سب سے آسان اور جائز سمجھا جاتا ہے پولیس و جرائم پیشہ افراد سمیت یہ سب کے لیے آسان ہدف سمجھا جاتا ہے جس کا نہ کوئی اگے اور نہ پیچھے نہ ہی کوئی دوست نہ رشتےدار کوئی ان کی مدد نہیں کرتا انہیں نہ ہی کوئی کرایہ پر گھر دیتا نہ رہنے کو سائبان
سپریم کورٹ سے ان کی رجسٹریشن سے لے کر حالیہ حکومت نے احساس پروگرام میں “خواجہ سراؤں” کو بھی شامل کرنے کا فیصلے تک ابھی کچھ عملی اقدامات لیے جا رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے ورنہ یہ بہت مظلوم لوگ ہیں جنہیں ان کے ماں باپ تک دھتکار دیتے ہیں اور تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں یہ عمر کے صرف آٹھ دس سال ہی اچھی روٹی کھاتے ہیں باقی بڑھاپا خاص کر بہت اذیت میں گزارتے ہیں ،
اور آخر میں آپ سب سے درخواست ہے کہ کسی کا مذاق اڑانے کی بجاے عزت اور متانت سے بات کریں اللّه کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں خواہ وه مرد عورت یا ٹرانس جینڈر ہی کیوں نہ ہو ۔۔
تحریر : فرحان عامر