عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی کی وفات کے بعد تحریک آزادی کشمیر پر ہونے والے اثرات”

بہاولپور( ) شعبہ مطالعہ پاکستان اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے زیر اہتمام عظیم حریت رہنما سید علی گیلانی کی وفات کے بعد تحریک آزادی کشمیر پر ہونے والے اثرات کے موضوع پر ویبینار منعقد کیا گیا۔

ویبینار میں وائس چانسلراسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب، پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چیئر مین اور کشمیر ی تحریک آزادی کی رہنما مشعال حسین ملک، چیئرمین شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور، پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین، پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسن چانڈیو، ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈلینگوئجز، پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حسین گیلانی، ڈین فیکلٹی آف لاء و چیئرمین شعبہ مطالعہ پاکستان،پروفیسر ظفر سندھو اور ڈاکٹر نادیہ پنجاب یونیورسٹی لاہور نے شرکت کی۔ مشعال حسین ملک نے اپنے خطاب میں کہاکہ سید علی گیلانی کی وفات سے کشمیری یتیم ہو گئے ہیں۔سید علی گیلانی کے دور اندیش اور فہم و فراست کے حامل رہنما تھے۔ جنہوں نے کئی دہائیوں قبل بھارت کے مذموم ارادوں کو بھانپ لیا تھا اور انہوں نے اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ کشمیریوں کا مذہبی، سماجی، ثقافتی اور معاشی قتل کیا جائے گا۔ جب بھارت نے 15برس قبل امن کو موقع دینے کے نام پر وفودکا تبادلہ کیا اور تجارت بحال ہوئی تب بھی سید علی گیلانی نے اپنی سیاسی بصیرت سے بتایا کہ بھارت صرف ڈرامے کر رہا ہے بعد میں دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے آرٹیکل 370اور 35Aختم کر کے کشمیریوں کو اپنی ہی زمین پر اجنبی اور مہاجر بنا دیا۔ سید علی گیلانی کی وفات پر بھارت بوکھلاہت کا شکار ہو گیا۔ انہوں نے اس موقع پر کشمیری رہنماؤں مقبول بٹ، افضل گرو، اشرف صحرائی، یاسین ملک، شبیر شاہ اور آسیہ اندرابی کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپو رکی جانب سے کشمیر کے موضوع پر ویبینار کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہمارے اساتذہ اور محقیقین کو اس موضوع پر تحقیق کرنی چاہیے۔ انہوں نے ویبینار کے انعقاد پر وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر محبوب حسین شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی نے کہا کہ سید علی گیلانی پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے اور انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا۔ شروع سے ہی تحریک آزادی کشمیر سے منسلک تھے اور بھارتی حربوں کو بے نقاب کرتے تھے۔28اگست 1962کو ان کو پہلی بار جیل ہوئی۔ ان کی زندگی ایک جہدمسلسل کا نام ہے اور 92ویں سالہ زندگی میں انہوں نے ایک لمحہ بھی اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی۔ انہوں نے 30سے زائد کتابیں لکھی اور ان کا نعرہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ہر کشمیری کے دل کی دھڑکن ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں چلتا پھرتا پاکستان تھے۔ ان کی وفات پر بھارتی فوج کا بزدلانہ کردار، اہل خانہ پر تشدد، بے حرمتی اور جبری تدفین انتہائی قابل مذمت اقدام ہیں اور جس کی عالمی میڈیا نے بھرپور مذمت کی۔پروفیسر ظفر اقبال سندھو نے کہا کہ نوائے وقت سے منسلک ہونے کے ناطے ان کا سید علی گیلانی سے ہمیشہ رابطہ رہتا تھا اور ان کی پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کے گواہ ہیں ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور آزادی کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگوئجز نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور تسلسل سے تحریک آزادی کشمیر کو ہر سطح پر اجاگر کرتی آئی ہے اور اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔ پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حسین گیلانی نے ویبینار میں خصوصی شرکت پر شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں