مسلمان ممالک اور افغانستان کا انسانی المیہ
رواں ہفتہ کے اختتامی روز اسلام آباد او آئی سی کے ایک اہم اجلاس کی میزبانی کرے گا۔ اسلامی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کا یہ سترھواں غیرمعمولی اجلاس افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ اس اجلاس میں رکن اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے اداروں، بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں، عالمی اقتصادی اداروں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
افغانستان میں روزبروز معاشی ابتری خصوصاً خوراک کی شدیدکمی جیسی سنگین صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اقوام عالم افغان عوام کی مدد کے لیے آگے آئیں اور انہیں اس انسانی المیے سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔ مسلسل جنگ، قحط اور غربت کی وجہ سے افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی یعنی دو کروڑ تیس لاکھ سے زائد لوگ غذائی مشکلات اور صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ان میں سے ستاسی لاکھ آبادی بشمول بتیس لاکھ معصوم بچے ایسے بھی ہیں جوشدید غذائی قلت کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔
افغانستان سے بیرونی افواج کی واپسی کے بعد وہاں کی معیشت شدید مشکلات کی زد میں ہے۔کیونکہ پچھلے بیس سال کے دوران افغانستان کاآدھا بجٹ قابض ممالک مہیا کر رہے تھے اور وہاں کی سالانہ قومی پیداوار کا 45فیصدمعیشتِ جنگ یعنی اکانومی وارکا مرہونِ منت تھا۔ستم بالائے ستم امریکہ نے اپنے بنکوں میں موجود دس ارب ڈالر کے افغان اثاثے منجمد کردیے۔ مزید یہ کہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف نے بھی مدد روک رکھی ہے۔ گویااقوامِ متحدہ، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی طرف سے چند طالبان رہنما ¶ں پر لگائی گئی پابندیوں کی سزا پوری افغان قوم کو دی جارہی ہے۔
اس وقت معاشی صورتِ حال اتنی ابتر ہے کہ افغان سرکاری ملازمین کو اپریل سے تا حال تنخواہ نہیں دی جا سکی۔مغربی ممالک ایک طرف تو افغان حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ لڑکیوں کے کالج جلد کھولے جائیں اور دوسری طرف جب طالبان اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے افغانستان کے اثاثے غیر منجمد کرنے کی بات کرتے ہیں تو اسے قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔
اس صورتِ حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوامِ عالم اور خاص طور پر مسلمان ممالک اپنے افغان بھائیوں کی مدد کریں۔ اس بات سے قطعِ نظر کے وہاں کس کی حکومت ہے، اس حکومت کے نظریات کیا ہیں، اُن کے خیالات دُنیا سے کتنے ہم آہنگ ہیں، ہمارے لیے یہ اہم ہونا چاہیے کہ وہاں کے عوام کو اس مشکل وقت میں تنہا نہ چھوڑا جائے۔خود مغربی ممالک کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے افغانوں کو تنہا کرکے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بلکہ انہیں دیوار سے لگانے کی کوششیں خود امریکہ اور اسکے حلیفوں کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
پاکستان نے اپنے طور پر افغان عوام کی مدد کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے کچھ عرصہ پہلے کابل کے دورے کے موقع پر پانچ ارب روپے کی امداد کا اعلان کیاتھا۔ خوراک، ادویات اور کپڑوں کی صورت میں بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں مصیبت زدہ افغان عوام کی مدد کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم افغان انسانی بحران بہت بڑا ہے اور اتنی ہی بڑی مدد کا متقاضی ہے۔
اسلامی تعاون کی تنظیم اُمت مسلمہ کی اجتماعی آواز ہے اور اسلام تو مصیبت میں کافروں کی بھی مدد کا درس دیتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے تو مکہ میں قحط پڑنے پردشمنوں کو بھی امداد بھیجی تھی۔ مسلمان تو ایک دوسرے کے لیے ایسے ہیں جیسے ایک جسم کے مختلف اعضائ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان کو تکلیف پہنچے اور دوسرے کو احساس تک نہ ہو۔ اس لیے اُمید ہے کہ اسلامی تعاون کی تنظیم اس مشکل صورتِ حال کے تقاضوں پر پورا اُترے گی اور مظلوم و مجبور افغان بھائیوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نہ صرف خود اُن کی مدد کے لیے آگے بڑھے گی بلکہ دوسری اقوام عالم کو بھی اُن کی مدد پر آمادہ کرنے میں پیش پیش ہوگی۔
تحریر:
(سید ابرار حسن)
Load/Hide Comments