مقامی سطح پر آزادی صحافت کے حوالے سے غلط اور گمراہ کن معلومات
رحیم یار خان کے معروف نواحی قصبے بھونگ کے رہائشی 30 سالہ اصغر علی جعفری گزشتہ 5 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ صحافی اصغر علی جعفری کے مطابق دیہی علاقوں میں صحافت کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، کیونکہ دیہی علاقوں میں وڈیرہ شاہی کا نظام ہے۔ اکثر دیہی علاقوں میں صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور جھوٹی ایف آئی آرز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو بہیمانہ تشدد کا بھی نشانا بنایا جاتاہے۔ اصغر علی جعفری نے بتایا کہ ان کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا کہ جب انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمہ کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک جاگیر دار و ایم پی اے کے خلاف حقیقت پر مبنی خبر لگانا انکا جرم ٹھہرا تھا۔ خبر یہ تھی کہ بھونگ تا ماہی چوک روڈ کو بنانے والے ٹھیکدار کو ایم پی اے کی مبینہ طور پر سر پرستی حاصل ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ٹھیکے دارسرکاری زمین سے مٹی اٹھا رہا ہے اور اس کے علاؤہ بھونگ میں موجود سرکاری کوارٹر پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ جس میں ٹھیکے دار نے اپنے ذاتی ملازم کو رہائش دے رکھی ہے۔ خبر کی اشاعت کے بعد اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ بھونگ نے مبینہ طور پر اصغر جعفری کو تھانہ میں بلا کر کہا کہ ایم پی اے کے خلاف خبریں لگانے سے باز آجاؤ ورنہ اسکا انجام ٹھیک نہ ہوگا کیونکہ ہمیں اوپر سے دباؤ ہے کہ آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کریں۔ اصغر جعفری نے ایس ایچ او کو کہا کہ آپ غلط اقدامات اور غیر قانونی احکامات کی پیروی مت کریں اور میں ہمیشہ میرٹ پر خبریں لگاتا ہوں اور لگاتا رہوں گا۔ چند روز بعد تھانہ بھونگ میں اصغر جعفری کے خلاف مبینہ طور پر فرضی مدعی انفورسمنٹ انسپکٹر تحصیل کونسل صادق آباد کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 178/21 درج کیا گیا اور پولیس نے رات کے اندھیرے میں اس وقت بھونگ کے علاقے سے پکڑ کر لے گئی۔ حراست کے دوران، پکڑ کر لے جاتے وقت راستے میں پولیس نے گاڑی روک کر اصغر جعفری پر بیہمانہ تشدد کیا جس سے جسم پر زخم آئے اور بعد ازاں حوالات میں بند کر دیا گیا۔ رات کو ایس ایچ او نے مبینہ طور پر کہا کہ ایم پی اے سے معافی مانگو تو ہم ابھی چھوڑ دیتے ہیں۔ اصغر جعفری نے بتایا کہ وہ حق پر تھے تو انہوں نے کسی سے بھی معافی نہیں مانگی اور وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔بعد ازاں ضلع بھر کے صحافیوں کے احتجاج کے بعد انتظامیہ نے اصغر جعفری کو رہا کر دیا اور میرٹ پر کام کرنے کی یقین دھانی کروائی گئی۔ اصغر جعفری نے بتایا کہ حق اور سچ لکھنے والے صحافیوں کو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جاگیر دار اور سیاست دان ،ایم این اے ، ایم پی اے ہمیشہ پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔ جو انکے سامنے نہیں جھکتا، اس کے ساتھ اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں حق اور سچ لکھنا بہت بھی مشکل کام ہے۔ اس سلسلہ میں جب مقامی ایم پی اے سے بھونگ وصادق آباد کے صحافیوں کی جانب سے احتجاجاً پوچھا گیا کہ آپ نے ایسا کیوں کروایا تو انکا کہنا تھا کہ یہ سب محض جھوٹے الزامات ہیں اور انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ انکا کہنا تھا کہ نہ ہی انہوں نے پولیس کو تشدد کا کہا اور نہ ہی انہیں ایسا کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ سینئر کیمرا مین سہیل انور کے ساتھ بھی پیش آیا جب انہیں ایک فنکشن کی کوریج کے دوران مقامی سیاست دان کے میڈیا منیجر نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور زخمی کر دیا۔ سہیل نے مقامی تھانے میں جب اس واقعہ کی رپورٹ درج کروانا چاہی تو پولیس نے درخواست لے کر کاروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ سہیل نے بتایا کہ سیاست دان نے ان پر تشدد حقائق پر مبنی ایک ویڈیو بنانے اور خبر نشر ہو جانے کی وجہ سے کیا تھا۔ سہیل نے پوری کوشش کی کہ پولیس اسکی درخواست پر مقدمہ درج کرے اور کارروائی کرے لیکن کچھ بھی نہ ہو سکا۔
ماضی ہو یا حال، اقتدار میں رہنے والی ہر حکومت نے آزادی صحافت کے حوالے سے ہمیشہ بلند و بانگ دعوے کیے ہیں تاہم حقائق اسکے بر عکس رہے ہیں۔ سنہ 1990 سے لیکر اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق 140 سے زائد صحافی پاکستان میں صحافتی فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے جا چکے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (IFJ) کے مطابق، پاکستان شعبہ صحافت کے لحاظ سے 5 بڑے صحافت کے لحاظ سےخطرناک ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کے بسنے والے صحافی آزادی صحافت کے حوالے سے جہاں بہت سے مسائل کا سامنا کرتے ہیں وہیں اُنہیں تنخواہیں بھی نہیں دی جاتی اور بلا معاوضہ کام لیا جاتا ہے۔ انٹرنشینل اور نیشنل فورمز پر حکومتیں آزادی رائے اور آزادی صحافت کا ڈھنڈورا تو پیٹتی ہیں لیکن حقائق اسکے برعکس ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے موثر قانون سازی اور حکمت عملی اختیار کرے۔
تحریر۔ بلال حبیب
Load/Hide Comments