بلدیاتی اداروں کی بحالی ۔۔۔ غلط معلومات اور اطلاعات کے تناظر میں”

بلدیاتی اداروں کی بحالی ۔۔۔ غلط معلومات اور اطلاعات کے تناظر میں

سال 2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی اور مرکز کے ساتھ صوبہ پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنائی۔ حکومت نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد ختم کردیا تھا اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ چھ ماہ کے بعد بہتر قانون سازی کر کے مقامی سطح کی حکومتوں کو موثر بنائیں گے اور نئے انتخابات کروائے جائیں گے ۔ لیکن انتخابات نہ ہو سکے اور پھر ایک آرڈیننس کے تحت اس مدت میں مزید ایک سال سے زائد کی توسیع کردی گئی۔
پنجاب میں آخری بلدیاتی انتخابات سنہ2016 میں ہوئے تھے اور ان منتخب بلدیاتی اداروں کی پانچ سال کی مدت دسمبر 2021 پوری ہونا تھی۔
سپریم کورٹ میں بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کے حوالے سے دائر کیس کی سماعت کرتے ہوئے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ عوام کو ان کے منتخب نمائندوں سے محروم کرنا کسی طور پر بھی آئینی نہیں ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نواز اور ایک شہری اسد کی درخواست کی سماعت کی تھی۔عدالت کا کہنا تھا کہ محض ایک نوٹیفیکیشن کا سہارا لے کر اداروں کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے بعد جب رحیم یارخان کے منتخب نمائندے بلدیاتی اداروں میں گئے تو واضع ہدایات نہ ہونے کے سبب چارج نہ لے سکے۔ عبدالوحید بھٹّی جو کہ شہر کے ایک معروف سماجی کارکن ہونے کے ساتھ چار بار قمر آباد 35 ایس، سے بلدیاتی انتخابات جیت کر کونسلر منتخب ہو چکے ہیں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے جب پہلا آرڈر بلدیاتی اداروں کی بحالی کے حوالے سے دیا تو ہم مقامی بلدیہ آفس رحیم یار خان چلے گئے اور جا کر ہم نے اپنے اختیارات کا مطالبہ کیا لیکن وہاں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہم اگر بلدیہ آفس جا کر بیٹھ بھی جائیں تو ہمیں کام نہیں کرنے دیا جائے گا اور بلدیہ میں موجود سرکاری ملازمین کو اوپر سے حکم دیا گیا کہ بحال ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کا کوئی حکم نہ مانا جائے اور نہ ہی انکا کوئی کام کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہاں ایک ایسی فضا بنائی گئی جس سے وہاں لڑائی کا خدشہ تھا۔ وحید بھٹّی نے بتایا کہ ہمارا شہر پر امن شہر ہے اور ہم کسی بھی قسم کا لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے تھے اس وجہ سے ہم پیچھے ہٹ گئے تاکہ شہر میں کوئی فساد برپا نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ایم این اے اور ایم پی ایز ہمارے تیار کردہ مختلف ترقیاتی منصوبوں پر اپنے نام کی پلیٹیں لگا رہے ہیں پھر بھی ہم نے کبھی کوئی مزاحمت نہیں کی کیونکہ ہم شہر کو پر امن رکھنا چاہتے ہیں۔ وحید بھٹّی نے ایک سوال کہ جواب میں بتایا کہ کیونکہ کورٹ کی جانب سے اداروں کی بحالی کے آرڈرز تو تھے لیکن کام کرنے کے حوالے سے ہدایات واضع نہیں ہو سکیں تھیں۔ سپریم کورٹ نے دوبارہ بلدیاتی چیئرمینوں سے پوچھا کہ آپکو کس نے کام کرنے سے منع کیا ہے اسکا نام بتائیں۔ اس کے بعد کورٹ نے واضع آرڈر دیا کہ آپ اپنے دفتروں میں جائیں اور کام کریں اور اگر آپکو کوئی کام کرنے سے منع کرے تو آپ اُسکے خلاف فوجداری ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کروائیں اور مقامی تھانوں میں درخواست دیں۔ اس کے بعد حکومتی جماعت کی طرف سے آنے والی مزاحمت رک گئی، لیکن اس کے بعد بھی اور طریقوں سے ہمیں کام کرنے سے روکا گیا۔ حکومت کی جانب سے 8 پرسنٹ بجٹ استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی اور 92 پرسنٹ بجٹ روک دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری افسروں کو تحریری طور پر کوئی حکم نہیں تھا لیکن انڈر ہینڈ انکو پابند کیا گیا تھا کہ آپ نے منتخب بلدیاتی نمائندوں کا کوئی کام نہیں کرنا۔ انہوں نے بتایا کہ کیونکہ وہ پہلے بھی منتخب ہو چکے تھے تو انکو کام لینے کا طریقہ پتہ تھا اور صرف دو ماہ کی قلیل مدت ملنے کے باوجود انہوں نے اپنے چیئر مین عامر اعجاز کی قیادت میں شہر کے بہت سے کام کیے جس میں صفائی ستھرائی سے لے کر شہر کی تعمیر و ترقی کے بہت سے کام بھی شامل ہے۔وحید بھٹّی کا کہنا تھا کہ حکومت نے جب بھی دوبارہ بلدیاتی انتخابات کروائے وہ دوبارہ ان میں حصہ لیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے معروف رہنما اور وارڈ 43 سے منتخب ہونے والے کونسلر عمران اشرف سے جب اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی روک ٹوک نہیں کی گئی اور منتخب بلدیاتی نمائندے اور چیئرمین بحالی کے بعد دفاتر میں آ کر اپنا کام کرتے رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ پہلی بار کورٹ کے آرڈر کے بعد جب بلدیاتی نمائندے آئے ہیں تو پراپر طریقے سے نہیں آئے اور دفاتر کے تالے توڑ کر چارج لینے کی کوشش کی گئی جو کہ مناسب طریقہ نہیں تھا۔ بعد ازاں کورٹ کی دوسری ہدایات کے بعد یہی نمائندے آ کر کام کرتے رہے ہیں اور کسی نے بھی نہیں روکا۔ انکا کہنا تھا کہ بلدیاتی بجٹ کے استعمال کے حوالے سے بھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی یہ بھی حکومت پر الزام ہے۔ بلدیہ چیئرمین اور اُنکے ساتھی کونسلر دو ماہ میں ہونے والے بہت سے کاموں کا کریڈٹ تو لے رہے ہیں لیکن اتنے کام قلیل بجٹ میں کیسے ممکن تھے۔ اس سلسلہ میں جب معروف سینئر قانون دان ممتاز مصطفیٰ سے جب رابطہ کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے کے بعد بلدیاتی نمائندوں کو چاہیے تھا کہ وہ چیف الیکشن کمیشن کے پاس جاتے اور وہاں جا کر سپریم کورٹ کے آرڈر کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کرواتے یہ وہاں نہیں گئےاور انہوں نے جسٹس عائشہ ملک کی عدالت میں پیٹیشن دائر کر دی کہ سپریم کورٹ کے حکم پر نفاذ کیا جائے، وہاں یہ پیٹیشن لمبی ہو گئی۔ ممتاز مصطفیٰ نے بتایا کہ بعد ازاں انہوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی کہ حکومت آپکے حکم پر عملدرآمد نہیں کر رہی، اس پر بھی کچھ دن لگ گئے اور آخرکار وہ آرڈر ہو گیا کہ یہ بحال ہو چکے ہیں اور انکو چارج دیا جائے اور انہوں نے چارج لے لیا۔ پھر یہ مثبت ہدایات دے دی گئیں کہ انکو چارج دیں یہ بحال ہو چکے ہیں، اس وقت ایک ڈیڑھ مہینہ باقی تھا گورنمنٹ نے بھی رکاوٹ نہ ڈالی کہ اس مختصر عرصہ میں یہ کیا کر لیں گے اور انکو چارج دے دیئے گئے۔ انکا کہنا تھا کہ یہ بحالی پچھلے بلدیاتی قانون کے تحت ہوئی تھی۔


تحریر۔ بلال حبیب

اپنا تبصرہ بھیجیں